آئرین فرحت کی غزل

    دن میں چراغ شام جلایا تھا ان دنوں

    دن میں چراغ شام جلایا تھا ان دنوں اک شخص میرے شہر میں آیا تھا ان دنوں میرا بھی حال ان دنوں کچھ تھا عجیب سا اس کا بھی دل کسی نے دکھایا تھا ان دنوں سکے کسی کی یاد کے آنچل میں بھر لئے چھن چھن انہیں بھی خوب ہلایا تھا ان دنوں کب تک رہے گی بے بسی ارباب-اختیار ہم نے بھی یہ سوال اٹھایا ...

    مزید پڑھیے

    سوچنا شرط ہے تدبیر بدل جائے گی

    سوچنا شرط ہے تدبیر بدل جائے گی کچھ عمل ہوگا تو تقدیر بدل جائے گی آج جو دیکھا سنا آج ہی لکھنا ہوگا ورنہ کل تک تو یہ تحریر بدل جائے گی ساتھ دیکھا ہے تجھے ہاتھ میں ڈالے ہوئے ہاتھ کیا میرے خواب کی تعبیر بدل جائے گی وقت کو روکنا ممکن ہی نہیں ہے میرے دوست کل یہی پاؤں کی زنجیر بدل جائے ...

    مزید پڑھیے

    جدا ہوتے نہیں ایسے بھی کچھ آزار ہوتے ہیں

    جدا ہوتے نہیں ایسے بھی کچھ آزار ہوتے ہیں سفر کے آخری رستے بڑے دشوار ہوتے ہیں جو چہرے پر لکھی تحریر پڑھ لیتے ہیں پل بھر میں کچھ ایسے لوگ ہیں مثل ستارہ بار ہوتے ہیں یہاں جو بھی ہے سب باطل نظر کا ایک دھوکا ہے تو پھر کس بات پر ہم یوں ہی دعویدار ہوتے ہیں چٹانوں پر ہرے پتے کہیں نغمہ ...

    مزید پڑھیے

    بہت سے زخم جن کو مستقل مہمان رکھا ہے

    بہت سے زخم جن کو مستقل مہمان رکھا ہے بدن کی قید میں کچھ درد کا سامان رکھا ہے کبھی لگتا ہے کہ میں آسماں کو چھو کے آئی ہوں کبھی لگتا ہے رستے میں کوئی طوفان رکھا ہے ہر اک لمحہ گماں کی دسترس میں کیا بتائیں ہم کہاں امید رکھی ہے کہاں ایمان رکھا ہے تمہاری آنکھ میں ٹھہرا ہوا پانی بتاتا ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری آنکھوں میں گر نمی ہے تو زندگی ہے

    تمہاری آنکھوں میں گر نمی ہے تو زندگی ہے جو زندگی میں کوئی کمی ہے تو زندگی ہے سکوت طاری جو ہو گیا تو تمام شد ہے کوئی خموشی جو بولتی ہے تو زندگی ہے کوئی خیال اور خواب نہ ہو تو اک خلا ہے کہ سوچ پاگل بھٹک رہی ہے تو زندگی ہے وہ چوٹ جو کہ کسی کو گھائل کیے ہوئے ہے تمہارے دل پر اگر لگی ہے ...

    مزید پڑھیے