ہر ایک آن وہ ہم سے جدا سا کچھ تو ہے
ہر ایک آن وہ ہم سے جدا سا کچھ تو ہے ہماری ذات کے اندر خدا سا کچھ تو ہے وہ کیا ہے کچھ بھی نہیں اک ذرا سا کچھ تو ہے کبھی دعا تو کبھی بد دعا سا کچھ تو ہے لہو ہے برف ہے رقص شرر ہے کیا ہے یہ یہ جسم و جاں میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے سمجھ سکا نہ کوئی اب تلک کہ وہ کیا ہے وہ آئینہ نہ سہی آئینہ ...