احمد شمیم کی نظم

    ہم زاد

    برق پا لمحوں کی اک زنجیر میں جکڑا ہوا وہ شکستہ پا انہی رستوں سے گزرا اور نادیدہ خداؤں کا ہجوم خندہ زن آنکھوں سے اس کی نارسائی کا تماشا دیکھ کر کہتا رہا تو نے چاہا تھا مگر تیرے مقدر میں نہ تھا جیسے اس کی بے بسی میں وہ کبھی شامل نہ تھے وہ کہاں گم ہو گیا کوئی نقش پا نہیں جس کی ...

    مزید پڑھیے

    ریت پر سفر کا لمحہ

    کبھی ہم خوبصورت تھے کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت سانس ساکن تھی بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر دور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے جو ہم سے دور تھے لیکن ہمارے پاس رہتے تھے نئے دن کی مسافت جب کرن کے ساتھ آنگن میں اترتی تھی تو ہم کہتے ...

    مزید پڑھیے