Ahmad Tanvir

احمد تنویر

احمد تنویر کی غزل

    اپنی ہی آواز کے قد کے برابر ہو گیا

    اپنی ہی آواز کے قد کے برابر ہو گیا مرتبہ انساں کا پھر بالا و برتر ہو گیا دل میں در آیا تو مثل گل معطر ہو گیا میرے شعروں کا سراپا جس کا پیکر ہو گیا ڈھلتے سورج نے دیا ہے کتنی یادوں کو فروغ چاند یوں ابھرا کہ ہر ذرہ اجاگر ہو گیا اب تو اپنے جسم کے سائے سے بھی لگتا ہے ڈر گھر سے باہر بھی ...

    مزید پڑھیے

    مرے لبوں پہ تو برسوں سے اک صدا بھی نہیں

    مرے لبوں پہ تو برسوں سے اک صدا بھی نہیں یہ کیسی چیخ تھی گھر میں تو دوسرا بھی نہیں تری کتاب میں رکھی تھی تتلیاں جس نے وہ میں ہی تھا یہ بتانے کا حوصلہ بھی نہیں وہ احتیاط سے خود کو سنبھالے رکھتا ہے میں ٹوٹ پھوٹ گیا اس کو کچھ ہوا بھی نہیں ذرا سی بات پہ خنجر نکال لیتا ہے کسی کو عشق ...

    مزید پڑھیے

    جانے کیسی بادلوں کے درمیاں سازش ہوئی

    جانے کیسی بادلوں کے درمیاں سازش ہوئی میرا گھر مٹی کا تھا میرے ہی گھر بارش ہوئی دہمکیٔ اوراق میں کل شب جو اس کا خط ملا ننگے پاؤں گھاس پر چلنے کی پھر خواہش ہوئی جن کی بنیادیں ہی اپنے پاؤں پر گرنے کو تھیں ان گھروں کی ریشمی پردوں سے آرائش ہوئی میرے خوں کا ذائقہ جب دوستوں نے چکھ ...

    مزید پڑھیے