مرے لبوں پہ تو برسوں سے اک صدا بھی نہیں
مرے لبوں پہ تو برسوں سے اک صدا بھی نہیں
یہ کیسی چیخ تھی گھر میں تو دوسرا بھی نہیں
تری کتاب میں رکھی تھی تتلیاں جس نے
وہ میں ہی تھا یہ بتانے کا حوصلہ بھی نہیں
وہ احتیاط سے خود کو سنبھالے رکھتا ہے
میں ٹوٹ پھوٹ گیا اس کو کچھ ہوا بھی نہیں
ذرا سی بات پہ خنجر نکال لیتا ہے
کسی کو عشق محبت سے واسطہ بھی نہیں
ہمارے عہد کے بچوں کا خاص تحفہ ہے
جو زخم خشک بھی پوری طرح ہرا بھی نہیں