احمد سلمان کی غزل

    کالی رات کے صحراؤں میں نور سپارا لکھا تھا

    کالی رات کے صحراؤں میں نور سپارا لکھا تھا جس نے شہر کی دیواروں پر پہلا نعرہ لکھا تھا لاش کے ننھے ہاتھ میں بستہ اور اک کھٹی گولی تھی خون میں ڈوبی اک تختی پر غین غبارہ لکھا تھا آخر ہم ہی مجرم ٹھہرے جانے کن کن جرموں کے فرد عمل تھی جانے کس کی نام ہمارا لکھا تھا سب نے مانا مرنے والا ...

    مزید پڑھیے

    شبنم ہے کہ دھوکا ہے کہ جھرنا ہے کہ تم ہو

    شبنم ہے کہ دھوکا ہے کہ جھرنا ہے کہ تم ہو دل دشت میں اک پیاس تماشہ ہے کہ تم ہو اک لفظ میں بھٹکا ہوا شاعر ہے کہ میں ہوں اک غیب سے آیا ہوا مصرع ہے کہ تم ہو دروازہ بھی جیسے مری دھڑکن سے جڑا ہے دستک ہی بتاتی ہے پرایا ہے کہ تم ہو اک دھوپ سے الجھا ہوا سایہ ہے کہ میں ہوں اک شام کے ہونے کا ...

    مزید پڑھیے

    جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے

    جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفہ کو کوئی نہ سمجھا جب اس کے کمرے سے لاش ...

    مزید پڑھیے

    جو دکھ رہا اسی کے اندر جو ان دکھا ہے وہ شاعری ہے

    جو دکھ رہا اسی کے اندر جو ان دکھا ہے وہ شاعری ہے جو کہہ سکا تھا وہ کہہ چکا ہوں جو رہ گیا ہے وہ شاعری ہے یہ شہر سارا تو روشنی میں کھلا پڑا ہے سو کیا لکھوں میں وہ دور جنگل کی جھونپڑی میں جو اک دیا ہے وہ شاعری ہے دلوں کے مابین گفتگو میں تمام باتیں اضافتیں ہیں تمہاری باتوں کا ہر توقف ...

    مزید پڑھیے