Aghaz Barni

آغاز برنی

آغاز برنی کی غزل

    اب اگر عشق کے آثار نہیں بدلیں گے

    اب اگر عشق کے آثار نہیں بدلیں گے ہم بھی پیرایۂ اظہار نہیں بدلیں گے راستے خود ہی بدل جائیں تو بدلیں ورنہ چلنے والے کبھی رفتار نہیں بدلیں گے دور تک ہے وہی آسیب کا پہرہ اب بھی کیا مرے شہر کے اطوار نہیں بدلیں گے میں سمجھتا ہوں ستارے جو سحر سے پہلے بجھنے والے ہیں شب تار نہیں بدلیں ...

    مزید پڑھیے

    اگر کچھ اعتبار جسم و جاں ہو

    اگر کچھ اعتبار جسم و جاں ہو ابھی کچھ اور میرا امتحاں ہو مجھے درپیش ہے بس ایک منزل کہ تجھ سے بات ہو لیکن کہاں ہو جسے موج بلا چومے مسلسل مری کشتی کا ایسا بادباں ہو کہاں تک صورت امکاں نکالوں اگر ہر بار محنت رائیگاں ہو مرے خوابوں کی وہ بے نام جنت زمین و آسماں کے درمیاں ہو مرے ...

    مزید پڑھیے

    دور سے کیا مسکرا کر دیکھنا

    دور سے کیا مسکرا کر دیکھنا دل کا عالم دل میں آ کر دیکھنا خود کو گر پہچاننا چاہو کبھی مجھ کو آئینہ بنا کر دیکھنا قد کا اندازہ تمہیں ہو جائے گا اپنے سائے کو گھٹا کر دیکھنا میں اندھیرے اوڑھ کر سو جاؤں گا تم اجالوں میں سما کر دیکھنا شام کا منظر حسیں ہو جائے گا ہاتھ پہ مہندی لگا کر ...

    مزید پڑھیے

    دل تھا کہ غم جاں تھا

    دل تھا کہ غم جاں تھا میں خود سے پشیماں تھا میں نے اسے چاہا تو وہ مجھ سے گریزاں تھا فطرت کے اشارے پر جو نقش تھا رقصاں تھا حالات کے ہاتھوں میں کیوں میرا گریباں تھا کل میرے تصرف میں اک عالم امکاں تھا میں خود سے چھپا لیکن اس شخص پہ عریاں تھا کیوں شہر نگاراں میں آغاز پریشاں تھا

    مزید پڑھیے

    بے حسی انسان کا حاصل نہ ہو

    بے حسی انسان کا حاصل نہ ہو دوستی ہو ریت کا ساحل نہ ہو میں تو بس یہ چاہتا ہوں وصل بھی دو دلوں کے درمیاں حائل نہ ہو مجھ کو تنہا چھوڑنے والے بتا کیا کروں جب دل تری محفل نہ ہو کس طرح میری زباں تک آئے گا حرف جو سچائی کا حامل نہ ہو یہ زمانہ چاہتا ہے آج بھی خون دل تحریر میں شامل نہ ...

    مزید پڑھیے

    گھر سے نکلنا جب مری تقدیر ہو گیا

    گھر سے نکلنا جب مری تقدیر ہو گیا اک شخص میرے پاؤں کی زنجیر ہو گیا اک حرف میرے نام سے دیوار شہر پر یہ کیا ہوا کہ رات میں تحریر ہو گیا میں اس کو دیکھتا ہی رہا اس میں ڈوب کر وہ تھا کہ میرے سامنے تصویر ہو گیا وہ خواب جس پہ تیرہ شبی کا گمان تھا وہ خواب آفتاب کی تعبیر ہو گیا میں تو ...

    مزید پڑھیے

    وہ نظر مہرباں اگر ہوتی

    وہ نظر مہرباں اگر ہوتی زندگی اپنی معتبر ہوتی نفرتوں کے طویل صحرا میں ان کی چاہت تو ہم سفر ہوتی اے شب غم مرے مقدر کی تیرے دامن میں اک سحر ہوتی لمحہ لمحہ اذیتیں ہیں جہاں یاد ہی ان کی چارہ گر ہوتی ان سے منسوب ہو گئے ورنہ زندگی کس طرح بسر ہوتی ہم ہی آغازؔ گرم صحرا تھے زلف کیا سایۂ ...

    مزید پڑھیے

    میں حرف ابتدا ہوں

    میں حرف ابتدا ہوں مسلسل اک صدا ہوں سحر کی آرزو میں کہاں تک آ گیا ہوں تخیل ہوں اسی کا میں جس کا نقش پا ہوں زمانہ دیکھتا ہے میں جس کو دیکھتا ہوں مجھے یہ ہوش کب ہے برا ہوں یا بھلا ہوں اسے سلجھاؤں کیسے میں خود الجھا ہوا ہوں

    مزید پڑھیے