گرد اڑے یا کوئی آندھی ہی چلے
گرد اڑے یا کوئی آندھی ہی چلے یہ امس تو کسی عنوان ٹلے انگ پر زخم لیے خاک ملے آن بیٹھے ہیں ترے محل تلے اپنا گھر شہر خموشاں سا ہے کون آئے گا یہاں شام ڈھلے دل پروانہ پہ کیا گزرے گی جب تلک دھوپ بجھے شمع جلے روپ کی جوت ہے کالا جادو اک چھلاوا کہ فرشتوں کو چھلے دلدلوں میں بھی کنول ...