Afzal Ahmad Syed

افضال احمد سید

پاکستان کے ممتاز ترین شاعروں میں سے ایک، اپنی تہہ دار شاعری کے لیے معروف

One of the leading Pakistani poets known for his layered poetic expression.

افضال احمد سید کی غزل

    سحاب سبز نہ طاؤس نیلمیں لایا

    سحاب سبز نہ طاؤس نیلمیں لایا وہ شخص لوٹ کے اک اور سر زمیں لایا عطا اسی کی ہے یہ شہد و شور کی توفیق وہی گلیم میں یہ نان بے جویں لایا اسی کی چاپ ہے اکھڑے ہوئے کھڑنجے پر وہ خشت و خواب کو بیرون ازمگیں لایا وہ پیش برش شمشیر بھی گواہی میں کف بلند میں اک شاخ یاسمیں لایا کتاب خاک پڑھی ...

    مزید پڑھیے

    روشن وہ دل پہ میرے دل آزار سے ہوا

    روشن وہ دل پہ میرے دل آزار سے ہوا اک معرکہ جو حیرت و زنگار سے ہوا جب نخل آرزو پہ خزاں ابتلا ہوئی میں دست زد ثوابت و سیار سے ہوا اک شمع سرد تھی جو مجھے وا گداز تھی اور اک شرف کہ خانۂ مسمار سے ہوا بیعت تھی میرے دست بریدہ سے خشت و خاک اس پہ سبک میں صاحب دیوار سے ہوا پیوست تھے زمین ...

    مزید پڑھیے

    کوئی نہ حرف نوید و خبر کہا اس نے

    کوئی نہ حرف نوید و خبر کہا اس نے وہی فسانۂ آشفتہ تر کہا اس نے شراکت خس و شعلہ ہے کاروبار جنوں زیاں کدے میں کس انجام پر کہا اس نے اسے بھی ناز غلط کردۂ تغافل تھا کہ خواب و خیمہ فروشی کو گھر کہا اس نے تمام لوگ جسے آسمان کہتے ہیں اگر کہا تو اسے بال و پر کہا اس نے اسے عجب تھا غرور ...

    مزید پڑھیے

    دعا کی راکھ پہ مرمر کا عطرداں اس کا

    دعا کی راکھ پہ مرمر کا عطرداں اس کا گزیدگی کے لیے دست مہرباں اس کا گہن کے روز وہ داغی ہوئی جبیں اس کی شب شکست وہی جسم بے اماں اس کا کمند غیر میں سب اسپ و گوسفند اس کے نشیب خاک میں خفتہ ستارہ داں اس کا تنور یخ میں ٹھٹھرتے ہیں خواب و خوں اس کے لکھا ہے نام سر لوح رفتگاں اس کا چنی ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اور رنگ میں ترتیب خشک و تر کرتا

    کچھ اور رنگ میں ترتیب خشک و تر کرتا زمیں بچھا کے ہوا اوڑھ کے بسر کرتا گل و شگفت کو آپس میں دسترس دیتا اور آئنے کے لیے آئنہ سپر کرتا چراغ کہنہ ہٹاتا فصیل مردہ سے گیاہ خام پہ شبنم دبیز تر کرتا وہ نیم نان خنک آب اور سگ ہم نام میں زیر سبز شجر اپنا مستقر کرتا وہ جس سے شہر کی دیوار بے ...

    مزید پڑھیے

    ہوا ہے قطع مرا دست معجزہ تجھ پہ

    ہوا ہے قطع مرا دست معجزہ تجھ پہ گیاہ زرد بہت ہے یہ سانحہ تجھ پہ میں چاہتا ہوں مجھے مشعلوں کے ساتھ جلا کشادہ تر ہے اگر خیمۂ ہوا تجھ پہ میں اپنے کشتہ چراغوں کا پل بنا دیتا کسی بھی شام مری نہر پیش پا تجھ پہ یہ کوئی کم ہے کہ اے ریگ شیشۂ ساعت اگا رہا ہوں میں اک نخل آئینہ تجھ پہ کہ ...

    مزید پڑھیے

    کبھی نہ خود کو بد اندیش دشت و در رکھا

    کبھی نہ خود کو بد اندیش دشت و در رکھا اتر کے چاہ میں پاتال کا سفر رکھا یہی بہت تھے مجھے نان و آب و شمع و گل سفر نژاد تھا اسباب مختصر رکھا ہوائے شام دلآزار کو اسیر کیا اور اس کو دشت میں پن چکیوں کے گھر رکھا وہ ایک ریگ گزیدہ سی نہر چلنے لگی جو میں نے چوم کے پیکاں کمان پر رکھا وہ ...

    مزید پڑھیے

    ستم کی تیغ پہ یہ دست بے نیام رکھا

    ستم کی تیغ پہ یہ دست بے نیام رکھا گل شکست سر شاخ انتقام رکھا میں دل کو اس کی تغافل سرا سے لے آیا اور اپنے خانۂ وحشت میں زیر دام رکھا نگار خانۂ تسلیم کیا بیاباں تھا جہاں پہ سیل خرابی کو میں نے تھام رکھا مژہ پہ خشک کیے اشک نامراد اس نے پھر آئنے میں مرا عکس لالہ فام رکھا اسی فسانۂ ...

    مزید پڑھیے

    اک شام یہ سفاک و بد اندیش جلا دے

    اک شام یہ سفاک و بد اندیش جلا دے شاید کہ مجھے شعلۂ در پیش جلا دے اس دل کو کسی دست ادا سنج میں رکھنا ممکن ہے یہ میزان کم و بیش جلا دے کس قحط خور و خواب میں میں مول کے لایا وہ نان کہ جو کاسۂ درویش جلا دے رخصت کو ہے دریائے دلآرام روانی جو کچھ ہے سفینے کے پس و پیش جلا دے شاید کہ کبھی ...

    مزید پڑھیے

    گرا تو گر کے سر خاک ابتذال آیا

    گرا تو گر کے سر خاک ابتذال آیا میں تیغ تیز تھا لیکن مجھے زوال آیا عجب ہوا کہ ستارہ شناس سے مل کر شکست انجم نوخیز کا خیال آیا میں خاک سرد پہ سویا تو میرے پہلو میں پھر ایک خواب شکست آئنہ مثال آیا کمان شاخ سے گل کس ہدف کو جاتے ہیں نشیب خاک میں جا کر مجھے خیال آیا کوئی نہیں تھا مگر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2