اک شام یہ سفاک و بد اندیش جلا دے

اک شام یہ سفاک و بد اندیش جلا دے
شاید کہ مجھے شعلۂ در پیش جلا دے


اس دل کو کسی دست ادا سنج میں رکھنا
ممکن ہے یہ میزان کم و بیش جلا دے


کس قحط خور و خواب میں میں مول کے لایا
وہ نان کہ جو کاسۂ درویش جلا دے


رخصت کو ہے دریائے دلآرام روانی
جو کچھ ہے سفینے کے پس و پیش جلا دے


شاید کہ کبھی خاک کم آمیر بلا لے
اور مجھ کو پس لوح کم اندیش جلا دے