آفتاب شمسی کے تمام مواد

10 غزل (Ghazal)

    جو دل میں ہے وہی باہر دکھائی دیتا ہے

    جو دل میں ہے وہی باہر دکھائی دیتا ہے اب آر پار یہ پتھر دکھائی دیتا ہے جو اپنے آپ سے لڑنے کو بڑھتا ہے آگے لہو میں اپنے وہی تر دکھائی دیتا ہے تمام خلق کو پتھر بنا گیا کوئی مجھے یہ خواب اب اکثر دکھائی دیتا ہے زمین ساتھ مرا چھوڑتی ہے جب تو فلک جھکا ہو مرے سر پر دکھائی دیتا ہے

    مزید پڑھیے

    کوئی اچھی سی غزل کانوں میں میرے گھول دے

    کوئی اچھی سی غزل کانوں میں میرے گھول دے قید تنہائی میں ہوں میں مجھ کو آ کر کھول دے یہ تناؤ جسم کا بڑھنے نہیں دے گا تجھے چست پیراہن میں تو اپنے ذرا سا جھول دے ایک لڑکی جل رہی ہے چلچلاتی دھوپ میں کوئی بادل آ کے اس پر اپنی چھتری کھول دے راہ تکتے جسم کی مجلس میں صدیاں ہو گئیں جھانک ...

    مزید پڑھیے

    آزردگی کا اس کی ذرا مجھ کو پاس تھا

    آزردگی کا اس کی ذرا مجھ کو پاس تھا میں ورنہ آج اس سے زیادہ اداس تھا سورج نہیں تھا دور سوا نیزے سے مگر میری انا کا سایہ مرے آس پاس تھا اب آ کے سو گیا ہے سمندر کی گود میں دریا میں ورنہ شور ہی اس کی اساس تھا روحیں اٹھیں گلے ملیں واپس چلی گئیں اس راز کے چھپانے کو تن پر لباس تھا پڑھ ...

    مزید پڑھیے

    اسیر جسم ہوں دروازہ توڑ ڈالے کوئی

    اسیر جسم ہوں دروازہ توڑ ڈالے کوئی گرا پڑا ہوں کنوئیں میں مجھے نکالے کوئی میں اپنے آپ میں اترا کھڑا ہوں صدیوں سے قریب آ کے مرے میری تھاہ پا لے کوئی میں جنگلوں میں درندوں کے ساتھ رہتا رہا یہ خوف ہے کہ اب انساں نہ آ کے کھا لے کوئی شکستہ کشتی کے تختے پہ سو رہا ہوں میں تھپیڑا موجوں ...

    مزید پڑھیے

    دیر تک رات اندھیرے میں جو میں نے دیکھا (ردیف .. ٰ)

    دیر تک رات اندھیرے میں جو میں نے دیکھا مجھ سے بچھڑے ہوئے اک شخص کا چہرہ ابھرا قسمیں دے دے کے مرے ہاتھوں نے مجھ کو روکا میں نے دیوار سے کل نام جب اس کا کھرچا دیکھ کر اس کو لگا جیسے کہیں ہو دیکھا یاد بالکل نہیں آیا مجھے گھنٹوں سوچا موم بتی کو گلاتا رہا دھیرے دھیرے رات اندھیرے کا ...

    مزید پڑھیے

تمام

13 نظم (Nazm)

    ہجرت

    بہت دنوں سے مجھے انتظار ہے لیکن تمہارے شہر سے کوئی یہاں نہیں آیا میں سوچتا ہوں تو بس یہ کہ اب تمہاری شکل گزرتے وقت کے ہاتھوں بدل گئی ہوگی خمیدہ زلفوں کی کالی گھٹا میں اب شاید سفید بالوں کی تعداد بڑھ گئی ہو گی تمہارے گال پہ جو ایک تل چمکتا تھا پتہ نہیں وہ چمک اس میں اب بھی باقی ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ

    کھڑکی کے شیشے سے چھن کر کمرے میں آ جاتی ہے میز کی تصویروں کو اپنے ہاتھوں سے چمکاتی ہے ساری کتابوں کے چہروں کو اجلا کرتی جاتی ہے پھر میرے بستر سے مجھ کو اٹھنے پر اکساتی ہے میں روز اپنے خواب ادھورے چھوڑ کے باہر جاتا ہوں!

    مزید پڑھیے

    میلہ

    آدمیوں کے اس میلے میں وقت کی انگلی پکڑے پکڑے جانے کب سے گھوم رہا ہوں کبھی کبھی جی میں آتا ہے اس میلے کو چھوڑ کے میں بھی ان ٹیڑھی راہوں پر جاؤں دور سے جو سیدھی لگتی ہیں لیکن جانے کیوں اک سایہ رستہ روک کے کہہ دیتا ہے وقت کے ساتھ نہ چلنے والے مرتے دم تک پچھتاتے ہیں آدمیوں کے میلے میں ...

    مزید پڑھیے

    رات، معمول اور ہم

    اپنے سائے سے بھی گھبرائیں گے ایک پل چین نہیں پائیں گے سوچتے سوچتے تھک جائیں گے ہانپتے کانپتے چل کر آخر تیرے دروازے پہ دستک دیں گے تو ہمیں دیکھ کے مغموم و ملول اپنی بانہوں کا سہارا دے گی اور ہم چین سے سو جائیں گے کل یہ سایہ ہمیں پھر گھیرے گا کل یہی فکر ہمیں کھائے گی اور ہم پھر اسی ...

    مزید پڑھیے

    نرس

    شہر کے ہسپتال میں اس کو ایک ہفتہ ہوا ہے آئے ہوئے ''سات نمبر'' کا کانا ٹھیکیدار کانپتا تھا جو دیکھ کر نشتر اس کے زخموں پہ آج کل وہ خود اپنے ہاتھوں سے پھائے رکھتی ہے لنگڑا بدھ سین ''گیارہ نمبر'' کا اس کی آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں گھونٹ کڑوی دوا کے پیتا ہے ''پانچ نمبر'' کا دق زدہ شاعر دیکھ ...

    مزید پڑھیے

تمام