Aftab Ahmad Khan Nasim

آفتاب احمد خاں نسیم

  • 1944

آفتاب احمد خاں نسیم کی غزل

    سراپا مہربانی ہو گیا کیا

    سراپا مہربانی ہو گیا کیا فرشتہ آسمانی ہو گیا کیا بہایا جا رہا ہے روز اس کو ہمارا خون پانی ہو گیا کیا مرا لاشہ اٹھا کے سر پہ اپنے ترا پتہ بھی پانی ہو گیا کیا مرا بھائی لئے پھرتا ہے خنجر اسیر بد گمانی ہو گیا کیا مہرباں ہو گئی کچھ زر کی دیوی تو پھر وہ خاندانی ہو گیا کیا نسیمؔ ...

    مزید پڑھیے

    آندھیوں کو پتہ چلا کیسے

    آندھیوں کو پتہ چلا کیسے گھر کا چھپر ترے اڑا کیسے کس نے ان بجلیوں کو دعوت دی آشیاں تیرا ہی جلا کیسے جب ہوا خود ترے مخالف تھی پھر دیا تیرا بجھ گیا کیسے بھیڑیا میمنے کو لے آ چکا سگ یہ سب دیکھتا رہا کیسے رک گیا تھا نظام ہستی جب حادثہ پھر بھلا ہوا کیسے کس کا الزام تیرے سر ہے ...

    مزید پڑھیے

    بھنور کشتی ڈبوتا ہے سمندر کچھ نہیں کہتا

    بھنور کشتی ڈبوتا ہے سمندر کچھ نہیں کہتا وہ ہونے دیتا ہے سب کچھ مقدر کچھ نہیں کہتا لبوں کو مصلحت سے بند ہی رکھتا ہے یہ ظالم ادھر جلتے ہیں گھر اور میرا رہبر کچھ نہیں کہتا گداگر چار پیسے پا کے اونچا بولتا ہے اب زر و دینار رکھ کر بھی تونگر کچھ نہیں کہتا ثمر تک ہاتھ نہ پہنچے تو بونا ...

    مزید پڑھیے

    تو اپنے مرتبے کی شان رکھ دے

    تو اپنے مرتبے کی شان رکھ دے ضمیر اپنا اٹھا لے جان رکھ دے کہانی پھونک دے عنوان رکھ دے مرے قاتل تری پہچان رکھ دے اٹھا مت میرا لاشہ اپنے سر پر تباہی کا ہے یہ سامان رکھ دے مشقت کھینچ لے فاقے کی سو جا رذالت جس میں ہو وہ نان رکھ دے کسی کم ظرف سے لقمہ نہ لینا اگرچہ اپنا دسترخوان رکھ ...

    مزید پڑھیے