خانہ بدوش
شاخوں پہ سرخ و زرد شگوفے ہیں محو خواب خواب گراں سے جاگنے والا ہے آفتاب گیسو کھلے ہوئے ہیں عروس بہار کے شانے ہلا رہی ہے صبا لالہ زار کے ویران ہو چلی ہے ستاروں کی انجمن دامان کوہسار میں جیسے ہیں خیمہ زن وہ لوگ پیکر غم و حرماں کہیں جنہیں بیتابیوں کے روپ میں انساں کہیں جنہیں ہر سانس ...