Afsar Mahpuri

افسر ماہ پوری

افسر ماہ پوری کی غزل

    غم حیات کے پیش و عقب نہیں پڑھتا

    غم حیات کے پیش و عقب نہیں پڑھتا یہ دور وہ ہے جو شعر و ادب نہیں پڑھتا کوئی تو بات ہے روداد خون ناحق میں کہیں کہیں سے وہ پڑھتا ہے سب نہیں پڑھتا کسی کا چہرۂ تاباں کہ ماہ رخشندہ جو پڑھنے والا ہے قرآں وہ کب نہیں پڑھتا وہ کون ہے جو تجھے رات دن نہیں لکھتا وہ کون ہے جو تجھے روز و شب نہیں ...

    مزید پڑھیے

    بہار آئے گی گلشن میں تو دار و گیر بھی ہوگی

    بہار آئے گی گلشن میں تو دار و گیر بھی ہوگی جہاں اہل جنوں ہوں گے وہاں زنجیر بھی ہوگی اسی امید پر ہم گامزن ہیں راہ منزل میں یہاں ظلمت سہی آگے کہیں تنویر بھی ہوگی اگر رہنا ہے گلشن میں تو اپنے آشیانے کی کبھی تخریب بھی ہوگی کبھی تعمیر بھی ہوگی یہی تو سوچ کر ہم ان کی محفل سے چلے ...

    مزید پڑھیے

    میرے لیے ساحل کا نظارا بھی بہت ہے

    میرے لیے ساحل کا نظارا بھی بہت ہے گرداب میں تنکے کا سہارا بھی بہت ہے دم ساز ملا کوئی نہ صحرائے جنوں میں ڈھونڈا بھی بہت ہم نے پکارا بھی بہت ہے اپنی روش لطف پہ کچھ وہ بھی مصر ہیں کچھ تلخئ غم ہم کو گوارا بھی بہت ہے انجام وفا دیکھ لیں کچھ اور بھی جی کے سنتے ہیں خیال ان کو ہمارا بھی ...

    مزید پڑھیے

    عجیب چیز محبت کی واردات بھی ہے

    عجیب چیز محبت کی واردات بھی ہے حدیث دل بھی ہے روداد کائنات بھی ہے عبودیت تو ہمارا ہے شیوۂ‌ فطری اگر خدائی کریں ہم تو کوئی بات بھی ہے ادھر بھی اٹھتی ہے ارباب انجمن کی نظر کچھ آپ ہی نہیں محفل میں میری ذات بھی ہے مرے وجود سے نا ممکنات کا عالم مرے وجود سے دنیائے ممکنات بھی ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    کیا بتائیں حال دل ان کی شناسائی کے بعد

    کیا بتائیں حال دل ان کی شناسائی کے بعد حبس بڑھتا ہی چلا جاتا ہے پروائی کے بعد ایک مدت پر خیال ان کا کہاں سے آ گیا کتنی اچھی انجمن لگتی ہے تنہائی کے بعد جب نظر آیا نہ ساحل ان کی چشم ناز میں کیا دکھائی دے گا وہ دریا کی گہرائی کے بعد در بدر کی ٹھوکریں کھائیں محبت میں تو کیا ہو گئے ...

    مزید پڑھیے

    وہ ہماری سمت اپنا رخ بدلتا کیوں نہیں

    وہ ہماری سمت اپنا رخ بدلتا کیوں نہیں رات تو گزری مگر سورج نکلتا کیوں نہیں ٹھیک اٹھتے ہیں قدم بھی راہ بھی ہموار ہے بوجھ اپنی زندگی کا پھر سنبھلتا کیوں نہیں جس طرح وہ چاہتا ہے ڈھال لیتا ہے ہمیں وہ ہمارے دل کے پیمانے میں ڈھلتا کیوں نہیں کیا محبت میں کبھی ہوتی ہے ایسی کیفیت وہ ...

    مزید پڑھیے

    شب کو پازیب کی جھنکار سی آ جاتی ہے

    شب کو پازیب کی جھنکار سی آ جاتی ہے بیچ میں پھر کوئی دیوار سی آ جاتی ہے ان کا انداز نظر دیکھ کے محفل میں کبھی مجھ میں بھی جرأت اظہار سی آ جاتی ہے اس ادا سے کبھی چلتی ہے نسیم سحری خشک پتوں میں بھی رفتار سی آ جاتی ہے ہم تو اس وقت سمجھتے ہیں کہ آتی ہے بہار دشت سے جب کوئی جھنکار سی آ ...

    مزید پڑھیے

    ان سے ہر حال میں تم سلسلہ جنباں رکھنا

    ان سے ہر حال میں تم سلسلہ جنباں رکھنا کچھ مداوائے غم گردش دوراں رکھنا اپنے قابو میں ذرا گیسوئے پیچاں رکھنا راس آتا نہیں دنیا کو پریشاں رکھنا اس اندھیرے میں بھٹک جائیں نہ یادیں ان کی اپنی مژگاں پہ چراغوں کو فروزاں رکھنا آج کل بکتے ہیں بازار میں انساں کے ضمیر تم ہو انسان تو پھر ...

    مزید پڑھیے

    سرشک غم کی روانی تھمی ہے مشکل سے

    سرشک غم کی روانی تھمی ہے مشکل سے جو بات کہنی تھی ان سے کہی ہے مشکل سے نہ جانے اہل جنوں پر اب اور کیا گزرے ابھی تو فصل بہاراں کٹی ہے مشکل سے شب فراق نہ پوچھو کہ کس طرح گزری سحر ہوئی تو ہے لیکن ہوئی ہے مشکل سے لگا ہوا ہے یہ دھڑکا کہ بجھ نہ جائے کہیں ہوا میں شمع محبت جلی ہے مشکل ...

    مزید پڑھیے