کہکشاں
زمیں سے تو یہ بات ہے دور کی مگر کہکشاں ہے سڑک نور کی کہیں صف بہ صف رنگ کی بوتلیں جلائی ہیں یا چرخ یہ مشعلیں کریں غور تو عقل سو جائے گی نظر اتنے تاروں میں کھو جائے گی یہ رستے میں شعلے بچھائے گئے کہ بجلی کے ٹکڑے اڑائے گئے ادھر سے ادھر تک ہے دریائے نور کہ آئینہ ہو گیا چور چور زمیں پر ...