کہکشاں

زمیں سے تو یہ بات ہے دور کی
مگر کہکشاں ہے سڑک نور کی
کہیں صف بہ صف رنگ کی بوتلیں
جلائی ہیں یا چرخ یہ مشعلیں
کریں غور تو عقل سو جائے گی
نظر اتنے تاروں میں کھو جائے گی
یہ رستے میں شعلے بچھائے گئے
کہ بجلی کے ٹکڑے اڑائے گئے
ادھر سے ادھر تک ہے دریائے نور
کہ آئینہ ہو گیا چور چور
زمیں پر کہاں اس قدر رنگ و روپ
یہ شاید فرشتوں کی ہے دوڑ دھوپ
نظر آ رہا ہے یہ تاروں کا باغ
فرشتوں نے روشن کئے ہیں چراغ
وہ بھرپور ہے روشنی کا سماں
کہ جیسے پسے چاند سورج یہاں
سماں دیکھ کر تم کہاں کھو گئے
چمنؔ جی تم آ کر یہاں سو گئے