اور میں بنچ پہ اکیلی بیٹھی ہوں

بارشوں کا ہاتھ تھامے آج میں نے بہت دیر تک واک کی
بنچ پہ بیٹھ کر دھیرے دھیرے لمبے گہرے سانس لیے
اور پھر کافی دیر تک آنکھیں تمہارے چہرے پہ جمائے بیٹھی رہی
بنا کسی وجہ کے میں ہنسی اور دیر تک ہنستی رہی
تنہائی کا کینوس بہت وسیع ہے
مگر ایک مکمل خاموشی اسے سیراب کرنے کو کافی ہے
گفتگو کی خواہش ہی رہی
سماعتیں سیراب ہیں اور بینائی جاگتی ہے
تمہارے نام کچھ چٹھیاں کب سے لکھ کے رکھیں تھیں
آج ہوا کے سپرد کر دیں
جانتی ہوں فاصلہ ناقابل تسخیر ہے
مگر دل ہے کہ اپنی من مانیاں کرتا ان فاصلوں کو پلک جھپکنے میں طے کرتا جاتا ہے
اور میں بنچ پہ اکیلی بیٹھی ہوں