اپنی قسمت میں اگر عیش کے ساماں ہوتے
اپنی قسمت میں اگر عیش کے ساماں ہوتے
عین ممکن تھا کہ ہم اور پریشاں ہوتے
باغباں ناز نہ کر اپنے چمن زاروں پر
ہم نے دیکھے ہیں چمن زار بیاباں ہوتے
اور ہی ڈھنگ سے تنظیم گلستاں ہوتی
دور اندیش اگر اہل گلستاں ہوتے
یہی دنیا جو جہنم ہے وہ جنت ہوتی
اپنے کردار سے انساں اگر انساں ہوتے
شاخ نازک پہ کھلے ہی تھے کہ مرجھا بھی گئے
ایک دن پھول یہی شان بہاراں ہوتے
اپنے ہی گھر کی کسی شے پہ نہیں حق اپنا
اس سے بہتر تھا کہ ہم بے سر و ساماں ہوتے
ہم نے ہر جور سہا ان کا خوشی سے لیکن
کاش وہ اپنی جفاؤں پہ پشیماں ہوتے
کوئی خوبی نہ کوئی وصف نہ کوئی جوہر
ہم اگر ہوتے تو کس بات پہ نازاں ہوتے
طبع موزوں میں اگر زور بیاں بھی ہوتا
ہم بھی اوروں کی طرح شعلہ بداماں ہوتے
اے کنولؔ پائے طلب ہی میں تھی لغزش ورنہ
مرحلے جو بھی تھے اس راہ میں آساں ہوتے