اپنی مسیحا کے نام
یہ کرب تخلیق کون جانے
سوائے تیرے سوائے میرے
تو بنت مریم میں بنت حوا
مری مسیحا
عجیب رشتہ ہے میرا تیرا
وہ لمحۂ کرب
جب مجھے اپنے جان و تن کی خبر نہیں تھی
ہر ایک چہرہ تھا دھندلا دھندلا
تمام شکلیں مٹی مٹی سی
فقط تری شکل آئنہ تھی
تری صدا تھی
جو میرے تار نفس کو چھو کر
لہو کی گردش بڑھا رہی تھی
تری صدا اس غنودہ دھڑکن میں
ڈوبتی اور ابھرتی سانسوں کے درمیاں
زندگی سے لبریز جام شیریں
تری صدا میں وہ حوصلہ تھا وہ سر خوشی تھی
کہ آخری بار
میرے ماتھے پہ سرد قطرے جو جھلملائے
حیات اور موت کی کشمکش کے مابین میں نے دیکھا
تری نگاہوں میں جیسے مہتاب جگمگائے
کہ تیرا چہرہ اک ایسی پاکیزہ روشنی سے دھلا ہوا تھا
کہ جیسے انجیل کھلتی جائے
وہی طلوع حیات کا خوش گوار منظر
کہ تیرا ملبوس زندگی کے ہزار رنگوں سے بھر چکا تھا
کہ تیرے ہاتھوں کے نور پیالوں میں
میرا سورج دمک رہا تھا