اپنی ہی آرزؤں سے اک جنگ ہے حیات

اپنی ہی آرزؤں سے اک جنگ ہے حیات
بس یوں سمجھ لو دست تہہ سنگ ہے حیات


کیوں مرگ ناگہاں کو پکاریں کہ آج کل
مرنے کا ایک اور نیا ڈھنگ ہے حیات


اے ناصحان عصر جئے جا رہے ہو کیوں
جب جرم ہے گناہ ہے اور ننگ ہے حیات


ہیں تیرے باغیوں پہ زمانے کی نعمتیں
تیرے جو ہیں انہیں پہ بہت تنگ ہے حیات


اے ساکنان فرش گلستاں ادھر بھی آؤ
میرے افق پہ دیکھو لہو رنگ ہے حیات


اپنی صلیب اپنے ہی شانوں پہ لائے ہم
حیراں ادھر ہے موت ادھر دنگ ہے حیات


شاعرؔ حیات و موت کے رشتے قدیم ہیں
ہے موت اک سکوت تو آہنگ ہے حیات