اپنے گزرے ہوئے لمحات ذرا یاد کرو

اپنے گزرے ہوئے لمحات ذرا یاد کرو
روز ہوتی تھی ملاقات ذرا یاد کرو


کیا سہانی تھی گھڑی کیسا سہانا موسم
چاند تاروں کی حسیں رات ذرا یاد کرو


تم اگر بھول گئے ہو تو کوئی بات نہیں
اس انگوٹھی کی وہ سوغات ذرا یاد کرو


چھت پہ آ جاتے تھے کپڑوں کا بہانا کر کے
کیا محبت کے تھے جذبات ذرا یاد کرو


میری مرضی میں ہوا کرتی تھی تیری مرضی
کتنے ملتے تھے خیالات ذرا یاد کرو


کس قدر میری محبت کے زمانہ تھا خلاف
بس اکیلی تھی مری ذات ذرا یاد کرو


غم کے بادل جو اٹھا کرتے تھے دل پر عارفؔ
اپنے اشکوں کی وہ برسات ذرا یاد کرو