انداز نرالا ہے ادا اور ہی کچھ ہے

انداز نرالا ہے ادا اور ہی کچھ ہے
یہ حسن نہیں نام خدا اور ہی کچھ ہے


کہتے ہو ہم اب غیر کو آنے نہیں دیتے
یا رب یہی سچ ہو پہ سنا اور ہی کچھ ہے


پردہ نہ رکھا تیرے لب روح فزا نے
ہم جانتے تھے آب بقا اور ہی کچھ ہے


جو میں نے کہا تھا وہ بگڑنے کی نہ تھی بات
کہتا ہوں کہ قاصد نے کہا اور ہی کچھ ہے


ہمدم یہی جاناں کی جدائی کا ہے رونا
کہتے ہیں جسے مرگ وہ کیا اور ہی کچھ ہے


عیسیٰ سے کہو مردۂ صد سالہ جلا لیں
بیمار محبت کی دوا اور ہی کچھ ہے


فرہاد ہوس پیشہ نے بھی دی تو سہی جان
پر شیوۂ ارباب وفا اور ہی کچھ ہے


تم حسن کی خیرات میں کیا دیتے ہو لاؤ
ہر چند تمنائے گدا اور ہی کچھ ہے


ہم زہد و عبادت کے بھی منکر نہیں ناظمؔ
پر قاعدۂ فقر و فنا اور ہی کچھ ہے