الاؤ

چراغ امروز بجھ رہا ہے
دھوئیں کی موجیں ابھر رہی ہیں


شب سیہ منتظر کھڑی ہے
اندھیرا چپ چاپ چھا رہا ہے
ابھی ہمارے گھروں کے اندر
سلگ اٹھیں گے الاؤ اپنے ہی جسم ایندھن کا کام دیں گے
گھروں سے باہر
شجر پہ الو کی سرد چیخیں
ہنسے گی ہم پر
کہ نغمگی کوئی شے نہیں ہے
کہ زندگی کوئی شے نہیں ہے


کھنڈر کی جانب نظر اٹھاؤ
یہ دور سے کتنا خوب صورت دکھائی دیتا ہے پاس جاؤ
تو موت کی ایک داستاں ہے
جمال شب واہمہ ہے اے دل
ہماری بستی میں رہنے والے
پرانے مے خوار واقف درد و غم نہیں ہیں
ہمیں ہیں دونوں
یہ میں یہ تو ہم جلیں گے شب بھر