اے اشتیاق دید بتا آج کیا کریں
اے اشتیاق دید بتا آج کیا کریں
ان سے نظر چرائیں کہ ہم سامنا کریں
ان سے کہو کہ فرض رفاقت ادا کریں
میرے جنوں پہ اہل خرد تبصرا کریں
ان دوستوں کی ہم پہ عنایت نہ پوچھئے
وہ وقت آ پڑا ہے کہ دشمن دعا کریں
فیض جنوں سے دار کی منزل تک آ گئے
اب اپنے قافلے کا کسے رہنما کریں
اہل طلب بہ ذوق طلب راہ عشق میں
ہر انتہا کے بعد نئی ابتدا کریں
کب تک میں انتظار کروں دور ہجر میں
امید کے چراغ کہاں تک جلا کریں
وہ میرے دل پہ برق تبسم گرا چکے
اب ان کو کیا ہزار فسانے بنا کریں
پھر کیوں نگاہ برق توجہ کرے ادھر
موج بہار سے جو نشیمن جلا کریں
شاہدؔ ہم آج حضرت ناصح سے پوچھ لیں
دل کا کہا کریں کہ تمہارا کہا کریں