احمدآباد
آگ کا ذائقہ ہر زباں پر سلگتا ہوا زخم تھا
رات کا آہنی در سمندر کی جانب کھلا
آگ ہی آگ تھی
قطرۂ آب پر کار سا خواب تھا
رات کا آہنی در جہنم کی جانب کھلا
راستوں نے کہا کیوں ہجوم فراواں کا انجام عبرت ہوا
کون عبرت کے احساس کو مانتا
موت کو زندگی زندگی کو جہنم فسانہ تمسخر کا حیرت ہوا
ہم سفر تھے وہ ایک دوسرے کے لیے
قرب ان کا مگر آتش خوف تھا
موج سے موج لڑتی ہوئی
موج سے موج ندی کے آلام میں جیسے ڈھلتی ہوئی
کھڑکیاں رہ گزر پر مقدر کی مانند کھلتی رہیں
جو تماشائی ان کے اندھیروں سے ابھرا وہ جلتا گیا
وہ تو ننھا تھا معصوم تھا
اس کو سورج کا یا چاند کا عکس سب نے کہا
وہ بھی جلنے لگا وہ بھی بہتے لہو میں پگھلنے لگا
وہ تو ننھا تھا معصوم تھا
وہ مسیحا تھا وہ آخری نور تھا اس کی تقدیر میں
مرگ بیکار کیوں آج لکھی گئی