افسانہ: ایک گھر میں رہنے والے اجنبی لوگ

ہر کوئی  اپنے اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ میں گم تھا۔ رات کا گہرا سناٹا دس مرلے کے اس مکان کو معمول کی طرح اپنی آغوش میں لے چکا تھا۔ سناٹا اس لیے نہیں تھا کہ مکان کے مکین کم تھےیا وہ اک دوجے سے اجنبی تھے۔ اللہ کے فضل سے بیرسٹر عبد الملک اپنے تین بچوں اور بیگم صاحبہ سمیت پندرہ برس سے اس مکان میں آباد تھے۔ بیشتر راتیں تمام افراد بھی گھر ہی ہوتے۔ لیکن مکان پھر بھی ہر قسم کی چوں چراں سے آزاد  رہتا ۔ ہاں بس کبھی کبھار  کوئی  گھر کا فرد موبائل  سے اپنا سر اٹھاتا اور ایک زور دار قہقہہ لگاتا۔ شاید وہ کوئی  مزاحیہ چیز دیکھتا ۔ لیکن چند ہی لمحوں بعد پھر پورا گھر اسی طرح سناٹے میں ڈوب جاتا۔ ایسا نہیں تھا کہ گھر کے مکین ایک دوسرے سے بیزار تھے یا پھر ان کے درمیان کوئی  بہت لمبی ناراضگی چل رہی تھی۔ بس نہ جانے کیوں ایک عجیب سی ہچکچاہٹ درمیان میں آ گئی  تھی۔ ایک اَن دیکھی سی اک دیوار تھی جو  ہٹنے کا نام نہیں لیتی تھی۔ ایک ایسی ان دیکھی دیوار جو سمندر میں ساتھ ساتھ چلتے پانی کو بھی علیحدہ کر دیتی ہے۔ سب مکین ساتھ رہتے تھے لیکن ایسے کہ ان میں میلوں کا فاصلہ ہو ۔ روزانہ سرسری سی ملاقات ہوتی، سلام دعا ہوتی اور پھر ہر کوئی  اپنی زندگی میں مگن ہو جاتا۔ ایسا نہیں تھا کہ بچے یا والدین بہت زیادہ گھر سے باہر رہتے تھے، پھر بھی آپس میں بات کا موقع ہی نہیں ملتا تھا۔

آج بھی کچھ  ایسی ہی سنسان رات تھی۔ خاموش سی، روکھی سی، پھیکی سی۔ بیرسٹر عبدالملک کے گھر کے دروازے پر گھنٹی بجی۔ عمیر جو بیرسٹر کا سب سے بڑا بیٹا تھا،نے دروازے پر گھنٹی کی آواز سنی، لیکن حسب معمول دروازہ کھولنے کے لیے  نہ اٹھا۔ یہ حال صرف اس کا نہیں تھا بلکہ بیرسٹر صاحب کے باقی بچوں کا بھی یہی حال تھا۔ ہر کسی کے پاس اپنے موبائل  اور لیپ ٹاپ تھے۔ سب اپنی اپنی دلچسپی کے مطابق مصروف تھے۔ گھنٹی کی آواز ایک دفعہ پھر بلند ہوئی ۔ اب کی بار عمیر کے چہرے پر شکنیں آئیں کہ کوئی  دراوازہ کھولنے کو نہیں اٹھا۔ اسی قسم کی شکنیں باقی گھر کے افراد کے چہروں پر بھی آئیں۔ لیکن دروازہ  کھولنے کو پھر بھی کوئی  نہیں اٹھا۔ گھنٹی کی آواز ایک دفعہ پھر بلند ہوئی ۔ اب کی بار بیگم صاحبہ جھنجھلا کے اٹھیں۔

"کون ہے بھئی؟ کسی کو توفیق نہیں ہوتی کہ دروازہ کھول دے۔ مجھے ہی کھولنا پڑتا  ہے۔"   یہ وہ گرج برس تھی جو گھر میں کبھی کبھار سنائی  دیتی۔ بیگم صاحبہ تو گرجتی برستیں لیکن کہیں سے ان کی گرج برس کا کوئی  جواب نہ آتا۔ ایسا محسوس ہوتا کہ وہ دیواروں سے باتیں کر رہی ہیں۔ کبھی کبھار تو بے حد جھنجھلا بھی جاتیں۔ اس پر ان کو سننے کو ملتا:

"ماما آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔ ہر وقت بولتی رہتی ہیں۔"

بیگم صاحبہ: "پاگل ہو گئی  ہوں بیٹا۔" وہ بس اتنا کہتی  اورپھر گھر کا سکوت اسی طرح قائم ہو جاتا۔

گھنٹی ایک دفعہ  پھر بجی لیکن اب بیگم صاحبہ بالکنی کی گرل پر پہنچ گئیں تھیں۔ باہر ڈلیوری بواۓ تھا۔ بیگم صاحبہ نے اسے دیکھا اور گھر کے اندر پلٹ گئیں۔ اندر آ کر اپنی دوسری نمبر والی بیٹی سےمخاطب ہوئیں:

"حمنہ ،یہ باہر تم نے کھانے کو کچھ منگوایا ہے؟"

حمنہ : "جی ماما۔کیا باہر وہی آیا ہے؟"

بیگم صاحبہ: "گھر کی کوئی  چیز تو تمہیں راس نہیں آتی۔ ہر وقت باہر کی چیزیں ٹھونستی رہتی ہو۔"

حمنہ  ماں کی بات نظر انداز کر تی اپنا موبائل  اٹھا کر باہر نکل گئی ۔   باہر جاتے وقت اس کا پورا دھیان موبائل  کی طرف تھا۔ وہ کسی سے موبائل  پر چیٹ کر رہی تھی۔

ادھر عمیر جو اپنا موبائل  پکڑے بستر پر دراز تھا کے فیس بک میسنجر پر تانیا نامی آئی  ڈی سے میسج آیا:

"پیزا منگوایا ہے۔ کھاؤ گے؟"

عمیر: "نہیں بھئی  ہمارے گھر پر ابا جی نے پابندی لگائی  ہوئی  ہے جنک فوڈ کی۔" یہ میسج حمنہ  کے موبائل  پر سہیل نامی آئی  ڈی سے ظاہر ہوا۔ اس میسج کے رپلائی  میں عمیر کے موبائل  پر تانیا کے نام سے میسج ظاہر ہوا:

"یہ ابا جان گھروں میں ہٹلر ہی ہوتے ہیں۔ ہر کام پر پابندی۔"

حمنہ  کے موبائل  پر سہیل نامی آئی  ڈی سے رپلائی  آیا۔

"ٹھیک کہہ رہی ہو۔ ایسا کرو مجھے پیزا فیس بک پر ہی بھجوا دو۔"

عمیر کے موبائل  پر تانیا نامی آئی  ڈی سے رپلائی  آیا۔

"ہاہاہا! سو فنی۔"حمنہ  کو سہیل نامی آئی  ڈی سے میسج آیا۔

"تمہیں پتہ ہے کہ اپنے لونلی پیپل والے گروپ میں جو انکل لونلی ایڈ ہیں انکا دو دن پہلے ایکسیڈینٹ ہوا ہے۔"

عمیر کے موبائل  پر میسج آیا:"نہیں۔ کب؟ تمہیں کس نے بتایا؟"

حمنہ  کے موبائل  پر سہیل نامی آئی  ڈی سے میسج آیا:"میں نے ان کی فیس بک سٹوری دیکھی تھی۔ کمر میں زیادہ چوٹ لگی ہے۔"

عمیر کے موبائل  پر تانیا نامی آئی  ڈی سے میسج آیا:"میں ابھی میسج کر کے حال چال پوچھتی ہوں ان کا۔ وہ تو انکل بھی بڑے سویٹ ہیں۔"

حمنہ  کے موبائل  پر سہیل نامی آئی  ڈی سے میسج آیا:"انکل سویٹ ہیں تو ہمارے بارے میں کیا خیال ہے؟"

عمیر کے موبائل  پر تانیا نامی آئی ڈی سے میسج آیا:"تم انتہائی چیپ ہو۔"

حمنہ  کے موبائل  پر میسج:"تھینکس فور یور کومپلیمنٹ۔ خیر وہ جو اپنے ساتھ لونلی آئی ز ایڈ ہے اسکو کوئی  ایوارڈ ملا ہے۔ مبارک باد دے دینا اسے بھی۔

  عمیر کے موبائل  پر میسج آیا:"او کے۔"

حمنہ  نے  چیٹ بند کی اور پیزا کھانے کی خاطر کچن سے برتن لینے لگی۔ لیکن پھر اسے جانے کیا خیال آیا کہ اس نے فیس بک پر ایڈ لونلی انکل کا حال چال پوچھنے کا فیصلہ کیا۔  اس نے  موبائل  نکالا اور فیس بک کھولی۔ پھر لونلی انکل کی آئی  ڈی نکالی:"السلام علیکم انکل! کیسے ہیں؟"

بیرسٹر عبد الملک جو کہ  اپنے کمرے میں موبائل  پر ایک سیاسی شو دیکھنے میں مصروف تھے ،نے فیس بک سے  نوٹی فی کیشن موصول کیا۔ انہوں نے اپنی انگلی کی پور سے نوٹفکیشن پر چھوا ۔ ان کے سامنے تانیا نامی آئی  ڈی کا ان باکس کھل گیا۔ انہوں نے میسج پڑا۔  دل میں سوچا، شکرہے دنیا میں کوئی  تو ہے جسے ہمارا خیال آیا۔ ورنہ گھر میں تو کسی نے جھوٹے منہ نہیں پوچھا۔

انہوں نے فوراً رپلائی  کیا:"ٹھیک ہوں  بیٹا۔ آپ سناؤ۔"حمنہ  نے رپلائی  موصول کیا۔

 پھر بیرسٹر صاحب کے موبائل  پر تانیا نامی آئی  ڈی سے میسج آیا:"انکل وہ پتہ چلا تھا کہ آپ کا ایکسیڈنٹ  ہوا ہے؟ طبیعت کیسی ہے آپ کی؟"

  حمنہ  کے موبائل  پر لونلی انکل  کی آئی  ڈی سے میسج ابھرا:"ٹھیک ہوں بیٹا۔ بس وہ جھگڑا ہو گیا تھاکچہری کے باہر ۔"

بیرسٹر صاحب کے موبائل  پر میسج آیا:"کیوں انکل؟ آپ تو اتنے سویٹ ہیں۔ آپ کا جھگڑا کیسے ہو گیا؟" بیرسٹر صاحب کو اس میسج پر ایک عجیب سا احساس ہوا۔

انہوں نے رپلائی  دیا:بس بیٹا۔ کچھ تھے کرمنل۔ وکیل ہوں ناں میں، تو ہو گیا جھگڑا۔"

 اس میسج کے بعد بیرسٹر صاحب نے   کچھ سوچا اور پھر ایک اور میسج بھیجا:"بیٹا آپ بھی بہت سویٹ ہو جس نے اتنے پیار سے میری طبیعت پوچھی۔  ورنہ میری اپنی اولاد کو تو فرصت ہی نہیں۔

بیرسٹر صاحب  کو تانیا نامی آئی  ڈی سے میسج آیا:"انکل آپ بیرسٹر ہیں؟ میرے پاپا بھی بیرسٹر ہی ہیں۔"

  اسکے بعد ایک میسج انہیں موصول ہوا:"کیوں آپ کے بچے آپ کا بالکل خیال نہیں رکھتے؟"

بیرسٹر صاحب نے دونوں میسج پڑھنے کے بعد رپلائی  دیا:"واہ یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ ویسے کون سے بار میں ہوتے ہیں آپ کے پاپا؟ میں اتنی پیاری بچی کے پاپا سے ضرور ملنا چاہوں گا۔"

بیرسٹر صاحب کو رپلائی  موصول ہوا:"میں ابھی پوچھ کر بتاتی ہوں۔"

حمنہ  میسج کر کے تیزی سے باپ کے کمرے کی طرف بھاگی۔  وہ میسجز کے خمار میں تھی کہ اس نے  بے خیالی میں بیرسٹر صاحب کے کمرے کا تیزی سے دروازہ کھولا۔  بیرسٹر صاحب ہڑبڑا کر لیٹے لیٹے تیزی سے پلٹے۔ کمر کی درد کی وجہ سے ان کی چیخ نکل گئی ۔ بیرسٹر صاحب کی چیخ سن کر حمنہ   میسجز کے خمار سے باہر آئی ۔ اس نے  چونک کر باپ سے پوچھا:"کیا ہوا پاپا؟"

بیرسٹر صاحب قدرے درشت لہجے میں بولے:"تو آ گیا تمہیں باپ کا خیال؟"

حمنہ  ہڑبڑا کر  بولی:"نہیں نہیں وہ مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ آپ کو چوٹ لگی ہے۔ وہ تو ابھی

بیرسٹر صاحب درشت لہجے میں گویا ہوۓ:"موبائل اور  لیپ ٹاپ کی جان چھوڑتی تو کچھ معلوم ہوتا کہ باپ کس حال میں ہے۔ خیر بتاؤ کیسے میری یاد آئی ؟"

حمنہ  شرمندہ ہوتے ہوۓ:"ککچھ نہیں بس آپ کا حال چال پوچھنا تھا۔"

بیرسٹر صاحب بیٹی کا چہرہ شرمندہ دیکھ کر قدر دھیمے ہوۓ: "ٹھیک ہوں میں۔ وہ جھگڑا ہو گیا تھا اس لیے چوٹ لگی۔" جیسے ہی حمنہ  نے جھگڑے کا سنا تو  قدر حیرت زدہ ہوئی ۔ سوچتے ہوۓ بولی۔

"آپ کو زیادہ تو نہیں لگی۔"

بیرسٹر صاحب بولے: "بس کمر میں ذرا زیادہ لگی ہے۔"

یہ بات سن کر حمنہ  اور حیرت میں پڑ گئی ۔     پھر بولی:"پاپا ایک بات پوچھوں؟"

بیرسٹر صاحب بولے: "ہاں پوچھو۔"

حمنہ   ہچکچاتے ہوۓ:"آپ کون سے بار میں ہوتے ہیں؟"

بیرسٹر صاحب نے سوال سنا تو تعجب سے بیٹی کی طرف دیکھنے لگے۔  حمنہ  کو  بھی باپ کی آنگھیں عجیب لگیں۔ اس کی حیرت میں اور اضافہ ہو گیا۔ کافی دیر جب حمنہ   کو باپ کی طرف سے  جواب کی بجاۓ صرف تعجب  بھری آنکھیں ملیں تو اس نے  باپ کی نگاہوں کو خشمگی سمجھتے ہوۓ کمرہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ باہر نکلی تو اس کا سامنا ماں سے ہوا۔  وہ باپ کے لیے  دودھ میں ہلدی ڈال کر لے جا رہی تھیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں موبائل  تھا جس پر ایک ڈرامہ چل رہا تھااور دوسرے میں دودھ۔ 

ماں حمنہ  کو دیکھ کر بولیں:"وہ جو شیلف پر پیزا رکھ کر آئی  ہو, جا کر کھا لو۔ کسی اور نے کھا لیا تو چیختی پھرو گی۔"

بیگم صاحبہ کی یہ آواز بیرسٹر صاحب کے کانوں میں بھی پڑی۔  لیکن انہوں نے نظر انداز کرتے ہوۓ  اپنا موبائل  اٹھایا اور تانیا نامی آئی ڈی پر میسج کیا:

"ہاں بیٹا پوچھا آپنے اپنے پاپا سے؟"

حمنہ  نے میسج دیکھا اور پھر رپلائی  دیا:"نہیں دراصل وہ پاپا کی کچھ طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ پوچھ نہیں سکی۔

یہ رپلائی  دے کر حمنہ  نے شیلف پر سے  پیزا اٹھایا اور ڈائننگ کی طرف بڑھ گئی ۔ ڈائننگ ٹیبل کے سامنے ایک الماری تھی۔  اس الماری میں اسے ایک ایوارڈ پڑا نظر آیا۔  ایوارڈ دیکھ کر اسے تعجب ہوا۔ کیونکہ یہاں وہ پہلے موجود نہیں تھا۔ حمنہ  نے ماں کو آواز دی:

"ماما یہ الماری میں ایک ایوارڈ پڑا ہے۔ کس کا ہے؟"

ماں کی غصہ بھری آواز آئی :"کس دنیا میں رہتی ہو تم۔ حاشر کا ہے اور کس کا ہے۔" حاشر حمنہ  کا تیسرے نمبر والا بھائی  تھا۔  حمنہ  ایوارڈ کو غور سے دیکھتی رہی اور پھر موبائل  کی طرف متوجہ ہوئی ۔ 

موبائل  پر حمنہ  نے لونلی آئی ز والی آئی ڈی نکالی۔ میسج کیا:"کونگریٹس۔ تمہیں ایوارڈ ملا۔"

ساتھ ہی   حمنہ  کو رپلائی  آیا:"تھینکس۔" اس کے ساتھ ایوارڈ کی تصویر بھی تھی۔ حمنہ  کو ایوارڈ کی تصویر دیکھ کر  دھچکا لگا۔   کیونکہ یہ وہی تھا جو سامنے الماری میں پڑا تھا۔ ماں نے ابھی ابھی بتایا تھا کہ یہ حاشر کا ہے۔

  حمنہ  نے میسج کیا:"تمہارا اصل نام حاشر ہے؟"

دوسری طرف سے کچھ  دیر بعدجواب آیا:"ہاں مگر تمہیں کیسے پتہ چلا؟"

حمنہ  نے رپلائی  دیا:"کمرے سے باہر آ جاؤ۔  میں نے پیزا منگوایا ہے۔"

دوسری طرف سے میسج آیا:"کیا مطلب؟"

حمنہ  نے رپلائی  دیا:"باہر آؤ بتاتی ہوں۔"

حاشر کمرے سے باہر آیا۔ ڈائننگ پر حمنہ  بیٹھی اسکی منتظرتھی۔

 حاشر باہر آکر:"بہت ہی عجیب اتفاق ہے بھئی ۔"

حمنہ  بولی:"کیا ہم اسی لیے اکٹھے رہتے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کی خبریں فیس بک سے ملیں۔"

حاشر: "آپی تم پوچھتی میں بتا دیتا۔ خود میں نے اس لیے نہیں بتایا کہ میں نے سوچا تمہیں کیا انٹرسٹ۔"

 حمنہ : "تو باقی چیزیں کیا میرا انٹرسٹ دیکھ کر مجھے بتاتے ہو؟"

حاشرغمگین لہجے میں بولا:"مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اک عرصے سے ہم نے ایک دوسرے کو کچھ بتایا ہو۔"

حمنہ  بھی نظریں جھکاتی بولی:"ہاں، یاد تو مجھے بھی نہیں پڑتا۔"

حاشر  اس پر قدرے پر جوش لہجے میں بولا:"خیر چھوڑو۔ اگر ایک عرصے سے نہیں بتایا تو اب اک اور بات بتاؤں؟"

حمنہ : "کیا بات؟"

حاشر: "کان لاؤ ادھر۔ یہ جو تم سہیل سے باتیں کرتی ہو نا، دراصل عمیر بھائی  ہیں۔"

حمنہ  پوری طرح چونکتے ہوۓ بولی:"کیا؟ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تمہیں کیسے پتہ؟"

حاشر نے قہقہ لگایا:"بھائی  کی آئی  ڈی میرے موبائل  میں بھی سائن ان ہے۔ میں تو بڑی دیر سے تمہاری اور ان کی چیٹ دیکھ رہا ہوں۔  اب ان کا تو مجھے پتہ تھا لیکن تمہارا پتہ نہیں تھا۔ اب تمہارا بھی پتہ چل گیا۔"

حمنہ  نے موبائل  اٹھایا تاکہ سہیل یعنی عمیر کو میسج کرے۔  جیسے ہی اس نے  موبائل  اٹھایا تو سامنے لونلی انکل والی آئی  ڈی سے میسج آیا ہوا تھا:

"آپ کیا کر رہی ہیں بیٹا؟"

حمنہ  نے جواب دیا:"پیزا کھانے لگی ہوں انکل۔"

ادھر بیرسٹر صاحب کو یہ میسج موصول ہوا تو وہ بھی سمجھ گئے کہ دوسری طرف دراصل کون بات کر رہا ہے۔

بیرسٹر صاحب نے رپلائی  دیا: "بیٹا باپ کے ساتھ تو کم از کم اصل آئی  ڈی سے بات کرتے ہیں۔"

حمنہ  نے میسج موصول کیا تو اس کے پیروں تلے تو پہلے زمین نکلی۔ پھر وہ پیزہ اٹھا کر باپ کے کمرے کی طرف بھاگی۔ حاشر بھی پیچھے پیچھے بھاگا۔ اندر گئی  تو باپ مسکرا رہا تھا۔ حمنہ  جا کر باپ سے لپٹ گئی ۔ ایک دم  بیرسٹر صاحب کی چیخ نکلی تو حمنہ  علیحدہ ہوئی ۔ 

بیرسٹر صاحب نے کہا:"اگر آج سب بھول کر یا اتفاق سے اکٹھے ہو ہی رہے ہیں تو بڑے کو بھی بلا لو۔

 بیگم صاحبہ جو ساتھ ہی بیٹھی تھیں بولیں:"ہاں ہاں، ابھی بلاتی ہوں۔"  پھر انہوں نے آواز دی۔

"عمیر عمیر

کافی دیر تک جب کوئی  آواز نہ آئی  تو حمنہ  بولی۔ ایک ہی طریقہ ہے بھائی  کو بلانے کا۔ حاشر ذرا واۓ فاۓ تو بند کرنا۔

حاشر: "ابھی کرتا ہوں۔"

یہ کہ کر حاشر کمرے سے باہر نکل گیا۔ جیسے ہی واۓ فاۓ بند ہوا تو عمیر کے کمرے سے آواز آئی :"یہ نیٹ مصیبت کو کیا ہوا ہے؟ کس نے واۓ فاۓ سے چھیڑ چھاڑ کی ہے۔"

ساتھ ہی ابو امی کے کمرے میں بیٹھے سب گھر والوں کا قہقہہ بلند ہوا۔

قہقہہ مدھم ہوا تو بیرسٹر صاحب ذرا رعب سے لیکن خوش گوار انداز میں  بولے:

"اس وقت روزانہ واۓ فاۓ بند ہوا کرے گا۔ تاکہ کم از کم ہمیں ایک دوسرے  کے بارے میں سوشل میڈیا سے تو نہ پتہ چلے۔"

متعلقہ عنوانات