اب یہ کیفیت دل ہے کہ چھپائے نہ بنے

اب یہ کیفیت دل ہے کہ چھپائے نہ بنے
اور جو وہ پوچھیں کہ کیا ہے تو بتائے نہ بنے


تم کو آزردگیٔ دل کا مزا کیا معلوم
کاش تم سے بھی کوئی کام بنائے نہ بنے


تو نے کیوں ان کو غم زیست دیا ہے یا رب
جن سے اک رنج محبت بھی اٹھائے نہ بنے


ہائے کیا پاس محبت ہے کہ تنہائی میں بھی
اشک آنکھوں میں رہے اور بہائے نہ بنے


ہم نشیں پوچھ نہ اس بزم کی رسمیں کہ جہاں
مجھ سے وحشی کو بھی بن ہوش میں آئے نہ بنے


وقت کی چارہ گری یوں تو مسلم ہے مگر
زخم بھی وہ ہے کہ تا عمر دبائے نہ بنے


یہ بھی اک رسم تماشا ہے وہاں اے عالیؔ
دیکھتے رہیے مگر آنکھ اٹھائے نہ بنے