اب قابو میں دل کیوں آئے اب آنکھوں میں دم کیوں ٹھہرے

اب قابو میں دل کیوں آئے اب آنکھوں میں دم کیوں ٹھہرے
جس بستی میں وو رہتا تھا اس بستی میں ہم کیوں ٹھہرے


جو رس اور بو سے عاری ہو جس پھول کی دھوپ سے یاری ہو
اس پھول پہ بھنورا کیوں ڈولے اس پھول پہ شبنم کیوں ٹھہرے


کیوں وید حکیم بدلتے ہو کیوں کڑھتے ہو کیوں جلتے ہو
رسنا ہی مقدر ہو جس کا اس زخم پہ مرہم کیوں ٹھہرے


ہم رنج پسندوں غم خواروں شوریدہ سروں کے کہنے پر
آئی ہوئی رت کیوں رک جائے جاتا ہوا موسم کیوں ٹھہرے


جو موتی اس کی پلکوں پر جھلکیں وہ کیوں انمول بنیں
جو چھلکیں ہماری آنکھوں سے قیمت ان کی کم کیوں ٹھہرے


پت جھڑ میں موسم گل میں بھی رونے پر بھی ہنسنے پر بھی
ہم لوگ ہی کیوں زنجیر ہوئے ہم لوگ ہی ملزم کیوں ٹھہرے


جب شہر میں مجھ جیسے خوش گو غم پرور اور بھی ہیں اس کو
کیوں آئے نظرؔ در میرا ہی گھر میرے ہر غم کیوں ٹھہرے