اب کیا ہوگا

وہ تو سب کچھ ہو گیا
جس کا اس نے سوچا تھا
اونچے برج پہ پہنچا تھا
ڈھول کی تھاپ پہ ناچے تھے
خوابوں کی تعبیر کا ورد اور
ہاتھ میں تسبیح سر پر ٹوپی
نیت کا پنچھی خوف کے مارے
خود سر لمحے کی گرفت میں آ کر
بیچارہ جکڑا اور بے بس پڑا تھا
اب کیا ہوگا
ہاتھ اٹھا کر رب کی جانب
آنکھ پر نم نے اک سوال کیا تھا
اب کیا ہوگا اب کیا ہوگا