اب حیات رنگ و بو کا حوصلہ جاتا رہا

اب حیات رنگ و بو کا حوصلہ جاتا رہا
دل گیا کیا نغمۂ ساز وفا جاتا رہا


پھر جھکی تیرے تصور میں جبین بندگی
پھر خیال عقدۂ روز جزا جاتا رہا


زندگی تھی مضمحل اور موج طوفاں کا شباب
اس کشاکش میں خیال ناخدا جاتا رہا


اس قدر بھٹکا حیات نوع انساں کا یقیں
کارواں کو اعتماد رہنما جاتا رہا