حسن سر راہ

گزر رہا ہے ادھر سے تو مسکراتا جا
کھلے نہیں ہیں جو غنچے انہیں کھلاتا جا
تجھے قسم ہے سکوں آزما نگاہوں کی
کسی غریب کی تقدیر کو جگاتا جا
وہی نگاہ وہی اک تبسم رنگیں
چراغ انجمن یاس کو بجھاتا جا
جنوں نواز تری مست گامیوں کے نثار
کمند ہوش و خرد سے مجھے چھڑاتا جا
فریب خوردۂ بزم حیات ہوں یعنی
مری نگاہ سے اب یہ حجاب اٹھاتا جا
اٹھا کے چہرۂ رنگیں سے پردۂ اسرار
حریم دل کو پھر اک بار جگمگاتا جا