آپ تو عشق میں دانائی لیے بیٹھے ہیں
آپ تو عشق میں دانائی لیے بیٹھے ہیں
اور دوانے ہیں کہ رسوائی لیے بیٹھے ہیں ہم
خانۂ ہجر میں یادیں تری رقصاں ہوں گی
ہم اسی شوق میں تنہائی لیے بیٹھے ہیں
تجربہ ہم پہ تغافل کا نہ کیجے ورنہ
کچھ ہنر ہم بھی کرشمائی لیے بیٹھے ہیں
ایک مدت سے وہ وحشت ہے کہ بس کیا کہیے
گھر میں ہم اک دل صحرائی لیے بیٹھے ہیں
تقویت عظمت کردار سے پائی ہے کہ ہم
ناتوانی میں توانائی لیے بیٹھے ہیں
تالیاں آج یہاں خوب بجیں گی نصرتؔ
سب کے سب اپنے تماشائی لیے بیٹھے ہیں