آپ ہیں میں ہوں محبت کی ڈگر ہے سامنے
آپ ہیں میں ہوں محبت کی ڈگر ہے سامنے
سوچئے مت خوب صورت سا سفر ہے سامنے
آپ کی آنکھوں کا منظر دیکھ کر لگتا ہے یوں
جس سے میں روشن ہوا ہوں وہ قمر ہے سامنے
سایا بن کے ساتھ ہے وہ فاصلہ پھر بھی لگے
ایسی قربت میں بھی دوری کا اثر ہے سامنے
کیا کروں اس موڑ پر یہ مسئلہ پھر آ گیا
اک طرف در ہے خدا کا تیرا گھر ہے سامنے
ضبط ایسا تھا کہ پتھر ہو گیا یہ دل مرا
چشم تر ہوں کیونکہ میرا ہم سفر ہے سامنے
بات ہوتی تو یہ عالم کیا سے کیا ہوتا مگر
وہ بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں اور نظر ہے سامنے
زور بازو آزمانا ہے اگر اب آپ کو
ہاتھ میں پتھر اٹھا لو میرا سر ہے سامنے
جھریوں میں گم ہوئی بچپن کی سب معصومیت
عمر بھر کا دیکھیے اب وہ سفر ہے سامنے
گاؤں لوٹا شہر سے جب کوئی بھی اپنا نہ تھا
بس وہی اک آم کا بوڑھا شجر ہے سامنے