آمد سال نو اور بد نصیب ہندی

آمد ہے سال نو کی سماں ہے بہار کا
سرسبز گلستاں ہے دل داغدار کا
عشق وطن میں عاشق صادق ہے جاں بہ لب
کیا حال پوچھتے ہو غریب الدیار کا
یا رب کہیں گے کس طرح ہم بیکسوں کے دن
یاد آیا ہے قفس میں زمانہ بہار کا
یوں اشک غم ٹپکتے ہیں آنکھوں سے قوم کی
ممکن نہیں ہے ٹوٹنا اشکوں کے تار کا
اک بار قتل عام کرو تیغ ظلم سے
اچھا نہیں ہے جور و ستم بار بار کا
اے مادر وطن کے سپوتو بڑھے چلو
یہ آج ہو رہا ہے اشارہ بہار کا
قاتل کو ناز قوت بازو پہ ہے اگر
مظلوم کو بھروسا ہے پروردگار کا
اے مادر وطن ذرا دست دعا اٹھا
مقتل میں امتحاں ہے ترے غم گسار کا
گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے دم بدم
کیا اعتبار غیر کے قول و قرار کا
اغیار سے کرم کی توقع فضول ہے
عرصہ گزر چکا ہے بہت انتظار کا
اے آفتابؔ دہر کا شکوہ ہے کیوں تجھے
ہوتا نہیں ہے کوئی دل بے قرار کا