آم رخصت ہو گیا

آہ صد افسوس ہے پھر آم رخصت ہو گیا
جس کو کھاتا تھا میں صبح و شام رخصت ہو گیا
کیوں نہ اس غم پر پڑھوں میں انا للہ دوستو
در حقیقت رب کا اک انعام رخصت ہو گیا
حوصلہ رکھ منتظر رہ موسم گرما کا پھر
بین مت کر اب دل ناکام رخصت ہو گیا
دیکھنے سے جس کے ہوتی تھیں نگاہیں شادباد
جس سے پاتا تھا یہ دل آرام رخصت ہو گیا
روکنا چاہا بہت لیکن وہ نکلا بے وفا
آخرش محبوب خاص و عام رخصت ہو گیا
پھیکی لگتی ہے مجھے تو زندگی اس کے بغیر
کیف و لذت کا وہ شیریں جام رخصت ہو گیا
سیر کیا ہوتی طبیعت بطن ہے خالی ابھی
چھوڑ کر وہ مجھ کو تشنہ کام رخصت ہو گیا
اب کسی کے جال میں یہ قید ہو سکتا نہیں
تھا اثرؔ جس کا اسیر دام رخصت ہو گیا