آئنہ ہوں ایک حیرانی مرے چاروں طرف
آئنہ ہوں ایک حیرانی مرے چاروں طرف
لمحہ لمحہ حشر سامانی مرے چاروں طرف
بحر عصیاں میں گھرا ننھے جزیرے سا وہ میں
اور پھر حد نظر پانی مرے چاروں طرف
جرم ہے معصومیت معتوب ہے دیوانگی
ہے خرد مندوں کی نادانی مرے چاروں طرف
وقفے وقفے سے یہاں اٹھنے لگے ہیں گرد باد
ہر طرف ماحول طوفانی مرے چاروں طرف
بستیاں جتنی بھی تھیں شہر خموشاں ہو گئیں
ہو گئی آباد ویرانی مرے چاروں طرف
میں کہ ہوں ہر حال میں چشم توجہ کا شکار
ہے تغافل کی نگہبانی مرے چاروں طرف
کون ہے جبر و سزا کا مستحق میرے سوا
ہے جو بد خواہوں کی سلطانی مرے چاروں طرف