آہنگ

Mama is that you?
کال سینٹر کے آپریٹر نے اچانک کہا۔
Yes my child۔آسیہ کی آواز میں اُمڈتی ہوئی محبت نے اُس کی آنکھیں نم کر دیں ۔ گلا اتنا رندھ گیا کہ آواز نکلنا محال ہو گیا۔ وہ کئی لمحے روتی رہی۔ پھر اُس نے بات کرنے کی کوشش کی۔
I traced you my child. Now you have to come home. You have to son. Your grandpa passed away waiting and searching for you.
تمھارے پاپا بھی ٹھیک نہیں ہیں ۔
He feels very lonely. You have to come. Forgive him son, come home
گھر آ جاؤ چاند۔
آسیہ ہچکیوں کے دوران بولتی گئی۔ اُسے اپنے کانوں پر اپنے دل پر،ساری دنیا پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ اُسے خواب سا لگ رہا تھا یہ سب۔ کیا واقعی وہ اپنے بیٹے سے مخاطب تھی، جو کوئی چار برس پہلے اچانک گھر سے غائب ہو گیا تھا۔ جس دن اُس کی تجویز گھر والوں نے ٹھکرا دی تھی۔ اُس کے اگلے دن سے اُسے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔


آخر اس میں برا کیا ہے ماما۔ ۔ ۔
وہ بڑی سی نشست گاہ کے برآمدے میں کھلنے والے دروازے پر کھڑا تھا۔ اُس کے تازہ دھلے بال جاڑوں کی نرم دھوم میں چمک رہے تھے اور ہوا سے رہ رہ کر لہرا بھی اُٹھے تھے۔
اندر تو آ جاؤ۔ ۔ ۔ ہوا لگ جائے گی۔ ۔ ۔ گیلے ہیں بال تمہارے۔ ۔ ۔ Come on in۔
آسیہ نے میز پر پھیلے اخباروں پر اپنا چشمہ رکھ دیا تھا اور بیٹے کی طرف دیکھنے لگی تھی جس نے اپنے طویل قامت جسم پر گہرے نیلے رنگ کی جینز پہن رکھی تھی۔ اور اُس پر مختلف رنگوں والا چار خانوں کے ڈیزائن کا سویٹر۔ یہ خانے سرخ، نارنجی، ہرے اور نیلے تھے۔ اُس کے صحت مند چہرے اور وجیہہ شانوں والے بدن پر اُس کی عمر کے لحاظ سے یہ لباس جچ رہا تھا۔ سویٹر کے گول گلے کے اندر سے ذرا ذرا سا جھانک رہے سفید قمیص کے کالر کے ساتھ اُس کے سفید Sports Shoes اچھے لگ رہے تھے۔
کیا سمجھا رہی ہیں انھیں ۔ ۔ ۔ ذرا حلیہ تو ملاحظہ کیجئے۔ ۔ ۔
جمال احمد نے میز پر پھیلے دو اخباروں میں سے ایک اپنی طرف سرکایا اور ہاتھ لہرا کر باسط کے بالوں کی طرف اشارہ کیا۔ باسط نے جلدی سے بالوں میں انگلیاں پھیریں اور دوسری طرف دیکھنے لگا کہ آسمان کے پس منظر نے وہاں کئی رنگ بکھیر دیئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ باسط نے سویٹر میں شامل سارے رنگوں سے اپنے بالوں کو بھی رنگ رکھا تھا۔
مجھے یہ سب بالکل پسند نہیں ۔ ۔ ۔ جمال احمد نے پہلا اخبار واپس میز پر رکھا اور دوسرا اُٹھا لیا۔
ارے یہ ادھر دیجئے نا۔ ۔ ۔ پڑھ چکے آپ اسے۔ ۔ ۔ میں نے دیکھا بھی نہیں صبح سے۔ ۔ ۔ آسیہ نے ہاتھ بڑھایا تو جمال احمد نے اخبار اُس کے ہاتھ میں دے دیا۔
مگر مجھے پسند ہے پاپا۔ ۔ ۔ یہ میری Lifeہے آپ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ زندگی مجھے گزارنی ہے۔ ۔ ۔ آپ دیکھ لیجئے گا میں سارا کام کیسے Successfullyنبھاؤں گا۔ ۔ ۔ باسط کی اٹھارہ سالہ آنکھوں میں چمک سی لہرائی۔
کام۔ ۔ ۔ ؟باپ نے یکلخت سر اُٹھا کر اُسے غصے سے دیکھا۔ ۔ ۔ (نہیں ۔ دیکھنے کی کوشش کی کہ اُن آنکھوں میں خواب ہی خواب تھے۔ ۔ ۔ اور چہرے پر اپنی عمر کے لحاظ سے پھیلی معصومیت میں عزم بھی تھا۔ ہونٹوں پر ایک ہلکی سی بے قرار مسکراہٹ تھی اور آنکھوں کی سیاہ پتلیاں بے چینی سے اپنے والد کے چہرے پر بدلتے تاثرات کا مشاہدہ کر رہی تھیں ۔ جس کی تاب نہ لا کر جمال احمد نے سر جھکا لیا۔)
زمانہ بدل گیا ہے ڈیڈ۔ ۔ ۔ آپ Please try to understand۔ ۔ ۔ میں کوئی غلط کام نہیں کر رہا۔ باسط دروازے سے اندر کی طرف دو قدم چلا۔
اگر یہ تمہارے لیے غلط کام نہیں تو۔ ۔ ۔ پھر۔ ۔ ۔ پھر غلط کیا۔ ۔ ۔
جمال احمد سر جھکائے بولے اور جملہ مکمل نہیں کیا کہ اُن کے والد چودھری کمال احمد بیٹھک میں داخل ہوئے۔ وہ صوفے پر بیٹھنے لگے تو جمال نے اٹھ کر سارے اخبار اُن کے قریب رکھ دیئے۔ انھوں نے ایک اخبار ہاتھ میں اُٹھایا اور سب کو باری باری دیکھا۔
کیا وہی بحث جاری ہے پچھلے دو دن سے۔ ۔ ۔ اب تک؟وہ بولے۔
جی۔ ۔ ۔ اب یہ اس بارے میں ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ جمال احمد نے صوفے پر پڑا اپنا پشمینے کا دوشالہ والد کے گھٹنوں پر پھیلا دیا تو باسط نے جلدی سے جوتے اُتار کر قالین سے لگے پائدان پہ رکھے اور اندر داخل ہو کر اپنے دادا کے شانوں پر پھیلا شال درست کرنے لگا۔
جیتے رہئے۔ ۔ ۔ یہ کیا ضِد پکڑ لی آپ نے بیٹا۔ ۔ ۔ یہ کیسے ممکن ہو گا۔ ۔ ۔
کافی پئیں گے ابّو؟آسیہ بیگم نے آہستہ سے پوچھا۔
ہاں بیٹی۔ ۔ ۔ بنوا دو۔ ۔ ۔ انھوں نے ایک نظر بہو کی طرف دیکھا پھر اپنے بیٹے سے مخاطب ہوئے۔
آپ نے شاید ٹھیک سے سمجھایا نہیں ہمارے بچےّ کو۔ ۔ ۔ یہ ہمارے لختِ جگر ہیں ۔ ۔ ۔ اتنے بڑے گھرانے کے چشم و چراغ ہیں جو ابھی بھی اس دور میں بھی۔ اُس کے کرم سے کئی لوگوں کی کفالت کا ذمہ دار ہے۔ ایسے غیرت دار گھرانوں پر پورے سماج کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ ۔ ۔ اگر اپنے۔ ۔ ۔ اپنے بچےّ ہی۔ ۔ ۔
داجان۔ ۔ ۔ داجان آپ سنئے تو۔ ۔ ۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ میں تو۔ ۔ ۔ یہ کہہ۔ ۔ ۔ باسط جب اپنے دادا کو مخاطب کرتا تو دادا کا لفظ اتنی جلدی ادا کرتا کہ دادا جان کے بجائے داجان سُنائی پڑتا۔ دادا کا دل اس صدا پر محبت سے چھلکنے لگتا۔
کیوں نہیں ہے۔ ۔ ۔ اب ایسا ویسا اور کیا ہوتا ہے۔ جمال احمد نے باسط کی بات کاٹ کر کہا۔
کسی اچھے خاندان سے تمہاری بہن کا رشتہ نہیں آئے گا۔ لوگ ہم کو۔ ۔ ۔ ہم کو جانے کس کس نام سے بلائیں گے۔ ۔ ۔ جمال احمد نے اپنی بات کی تائید کے لیے جھٹکے سے سر بیوی کی طرف موڑا مگر آسیہ کے چہرے پر کوئی شدید ردِّ عمل نہ دیکھ کر سر جھکا لیا۔ اور پھر سر اُٹھا کر ریشمی پردے کی آڑ سے جھانک رہے کھڑکی کے شیشے سے باہر دیکھنے لگے۔
پرسکون باغیچے کے درمیان سے گزرتے کنکریٹ والے راستے کے ایک طرف بڑے سے دبیز خوش رنگ قالین کو دھوپ میں پھیلایا گیا تھا۔ دوسری طرف ہرے سنگ مرمر کی گول میز کے گرد بید کی کرسیاں رکھی تھیں ۔راستے پر لمبی لمبی دو گاڑیوں میں سے ایک کو ڈرائیور تیج پال بڑی پھرتی سے چمکا رہا تھا۔ جب چودھری صاحب کی آواز یکلخت اونچی ہو کر کھڑکی کے شیشے کے اُس پار چلی آتی، وہ چونک کر کھڑکی کی طرف دیکھتا۔ وہ بہت چھوٹا سا تھا جب سے یہ آوازیں سنتا آ رہا تھا۔ جب اُس کا باپ دھرم پال بڑے چودھری صاحب کی گاڑی چلایا کرتا تھا۔ بٹوارے سے کچھ سال پہلے سے کئی سال بعد تک۔ تیج پال نے اسی گھر کی گاڑیوں پر ڈرائیونگ سیکھی تھی۔ جب بڑے چودھری پچھلی سیٹ پر دو چھوٹے چکور تکیے رکھ کر لمبے سفر کیا کرتے تھے۔ دلی سے لاہور، سیالکوٹ وغیرہ۔ پھر تقسیم کے بعد انھوں نے اس طرف ہی رہنا پسند کیا۔ حالانکہ اُن کا کاروبار راول پنڈی میں بھی پھیلا تھا۔جو صدر ایوب نے راجدھانی کے طور پر چُنا تھا مگر بعد میں غالباً نوآباد کاروباری طبقے میں مقبولیت حاصل نہ کر پانے کے سبب صدر نے راول پنڈی سے کچھ فاصلے پر نئی راجدھانی اسلام آباد بسائی۔ چودھری صاحب کا اُس خطے سے فون یا خط وغیرہ کے ذریعے رابطہ رہا کرتا تھا جو باسط کی نسل تک آتے آتے تقریباً ختم ہو گیا۔ اِدھر کی منقولہ و غیر منقولہ جائداد میں کچھ ترقی بھی ہو رہی تھی مگر وہ زیادہ ترقی کے خواہاں نہ ہو کر قانع قسم کے انسان واقع ہوئے تھے۔ کہ رکھ رکھاؤ بھی پہلے سا تھا اور اطمینان بھی ویسا ہی۔ ۔ ۔ باسط اس بات پر اکثر سوچا کرتا تھا جسے وہ اعلیٰ تعلیم دلوانے کے خواہاں تھے۔ مگر اُس کا پڑھائی میں بالکل دل نہیں لگتا تھا۔ اُسے وقفے وقفے سے Fashion Designing اور Modellingکے دورے پڑے تھے جو بڑی سختی سے دبا دیئے گئے تھے۔
اب مگر اُس نے Hair Dresserبننے کی ضِد پکڑ لی تھی اور یہ بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی تھی کہ گھر والے اُسے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ذاتی کاروبار سے وابستہ کر دینا چاہتے تھے۔
تو پھر۔ ۔ ۔ ڈیڈ۔ ۔ ۔ آپ دیں گے مجھے اس کورس کے لیے فیس؟
نہیں بالکل نہیں ۔ ۔ ۔ ہمت کیسے کرتے ہو تم یہ پوچھنے کی۔ ۔ ۔ احمق۔ ۔ ۔ حجّام بننا چاہتے ہو تم۔ ۔ ۔ دفع ہو جاؤ۔ میری نظروں سے۔ ۔ ۔
جمال احمد نے آواز اونچی کر کے کہا تھا۔
اور باسط دفع ہو گیا تھا۔ کبھی نہ لوٹنے کے لیے۔ اور اُس کے جانے سے گھر کی ساری خوشیاں بھی جیسے رخصت ہو گئیں کہ سب علیل رہنے لگے تھے۔


باہر کی کسی کمپنی نے ایک نئی دوا ایجاد کی تھی جس سے کئی بیماریوں کا بیک وقت علاج ہو سکتا تھا۔ آسیہ نے جمال احمد کے دل کے عارضے اور ذیابیطس کی دوا کے سلسلے میں فون کیا تھا۔ Momکا لفظ سنتے ہی آسیہ نے اپنے بیٹے کی آواز پہچان لی تھی۔ اُس کا دل اچھل کر جیسے حلق میں اٹکا چاہتا تھا۔ مگر اُس نے خود کو منفی انداز میں سمجھایا کہ یہ اُس کے بیٹے کی آواز کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ تو کسی اور کی آواز ہے۔ اور دوسری بار ہیلو سُن کر اُسے ایسا ہی محسُوس ہوا تھا کہ یہ کسی اور کی آواز ہے۔ مگر جب اُس نے دوبارہ پوچھا تھا کہ کیا یہ اُس کی ماں بول رہی ہے تو ہ تڑپ اُٹھی تھی۔
?Grand Paوہ سوالیہ انداز میں دھیرے سے بولا تھا۔
ہاں ۔ تمھارے دادا جان نہیں رہے بیٹا۔
کب آؤ گے گھر۔ ۔ ۔ اب آ جاؤ۔ ۔ ۔ اپنا کاروبار سنبھال لو۔ ۔ ۔ ہم نے تمہاری جدائی کے ان چار برس میں چار دہائیاں جی لی ہیں میرے لعل۔ ۔ ۔ اب ہم تھک گئے ہیں ۔ ۔ ۔ تم آ جاؤ۔ ۔ ۔ کوئی ایسے روٹھتا ہے۔ ۔ ۔ تم جو چاہے کام کرو۔ ۔ ۔ میں منالوں گی تمہارے ڈیڈ کو۔ ۔ ۔ آ جاؤ۔ ۔ ۔ Please بیٹا۔ ۔ ۔ آسیہ سسکیاں لیتی رہی۔ وہ اُس کی سسِکیاں ں سنتا رہا۔ اُس کے ہاتھ Key Boardپر ٹھہرے رہے۔ مانیٹر پر فون نمبر کے ساتھ گھر کا پتہ درج تھا وہ پتھر کے بت سا مانیٹر کو دیکھتا رہا۔
کب آؤ گے بیٹا۔ ۔ ۔ ؟آسیہ کی گلو گیر آواز نے اُسے چونکا دیا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔
Mom?وہ دھیرے سے بولا۔
Yes my babyآسیہ کھنکھار کر بولی۔
''I don't need dad's money - I need your love- I need nothing else.......
وہ ہچکیاں لینے لگا۔
--I need you only.وہ بمشکل بول رہا تھا۔
Don't ask me to come home. You come and stay with me ..... will you ...... mom?..... please mama.
--but why?یہ تمھارا گھر ہے میرے بچےّ۔ تمہاری جائداد ہے۔ ۔ ۔ تم وارث ہو اس گھر کے۔ ۔ ۔ تمہاری بہن اپنے گھر میں آبا دہے۔ ۔ ۔ یہ تمھارا ہے سب۔ ۔ ۔
You give it to her..... and come to me.
اچھا تم گھر تو آ جاؤ۔ ۔ ۔ یہاں ہی بات کر لیں گے۔ ۔ ۔ تم آؤ تو صحیح۔ ۔ ۔
Mama first you come to me. Can you mom? Don't say no please!
اچھا میرے بچےّ۔ ۔ ۔ آؤنگی میں ہی پہلے۔
اُس نے آسیہ کو پتہ لکھوایا۔
آسیہ نے گاڑی نکلوائی۔
راستے بھر اُس کے آنسو بہتے رہے۔
میرا ّبچہ۔ ۔ ۔ اب تو ایک بار بھی امّی نہیں کہتا۔جانے کیسا لگتا ہو گا اب۔ ۔ ۔ کب وہ اُسے سینے سے لگائے گی۔
بتائے ہوئے پتے پر آسیہ بیگم نے بے قراری سے کال بیل بجائی تو ایک درمیانہ قد نوجوان نے دروازہ کھولا۔ اُس کے بال بھورے تھے اور چہرے پر داڑھی تھی۔ چشمے کے پیچھے اُس کی آنکھوں کی پُتلیاں بھی ہلکی بھوری نظر آ رہی تھیں ۔
باسط سے ملنا ہے۔ ۔ ۔ Does Basit live hereآسیہ لرزتی آواز میں بولی۔
لڑکا بغور آسیہ کو دیکھ رہا تھا۔
I want to see my son Basit. Does he live here? He gave me this address.
آسیہ نے ہاتھ میں پکڑی پرچی اُس کی طرف بڑھائی۔ نوجوان نے چشمہ اُتارا اور پرچی کو ایک نظر دیکھا۔ آسیہ نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں ۔ ۔ ۔ اور ابھی بھی آنسو بھرے تھے۔ بلکہ بہہ نکلے تھے۔ ۔ ۔
What happened?
آسیہ نے جلدی سے پوچھا۔آنسو بہہ کر لڑکے کی داڑھی میں گم ہو گئے۔
''-Mom-وہ دھیرے سے بولا۔
تو کیا۔ ۔ ۔ تو کیا۔ ۔ ۔ تم۔ ۔ ۔ تم؟آسیہ کا سر چکرانے لگا تو اُس نے بڑھ کر آسیہ کو تھام لیا۔
I am not your son..... but..... but..... you are my mother. My mother died last year, whose voice was exactly like yours. I don't know how I--- how I called you mom, but you.... you are my mom. aren't you....?
وہ آسیہ کو سہارا دے کر کمرے میں لے آیا اور اُسے صوفے پر بیٹھا کر خود فرش پر بیٹھ گیا اور سر اُس کے گھٹنوں پر رکھ کر ہچکیاں لیتا رہا۔
Yes.... I ....am.آسیہ نے اُس کے سرپر دونوں ہاتھ رکھ دیئے اور بلک بلک کر رو پڑی۔