زندگی نے جھیلے ہیں سب عذاب دنیا کے

زندگی نے جھیلے ہیں سب عذاب دنیا کے
بس رہے ہیں آنکھوں میں پھر بھی خواب دنیا کے


دل بجھے تو تاریکی دور پھر نہیں ہوتی
لاکھ سر پہ آ پہنچیں آفتاب دنیا کے


دشت بے نیازی ہے اور میں ہوں اب لوگو
اس جگہ نہیں آتے باریاب دنیا کے


زندگی سے گزرا ہوں کتنا بے نیازانہ
ساتھ ساتھ چلتے تھے انقلاب دنیا کے


ہم نے دست دنیا پر پھر بھی کی نہیں بیعت
جانتے تھے ہم تیور ہیں خراب دنیا کے