ہم خود بھی اپنے ساتھ نہیں

اک کبھی نہ بیتنے والی شب
اک ہاتھ نہ آنے والا دن
اس شب سے جان چھڑانے میں
اس دن کو ڈھونڈ کے لانے میں
ہم ریزہ ریزہ ہو کے رہے
جو پایا تھا وہ کھو کے رہے
اس پانے میں اس کھونے میں
ہونے میں اور نہ ہونے میں
کچھ سود و زیاں کا ہاتھ ہے کیا
یا اور ہی کوئی بات ہے کیا
اس ساری اضافی باتوں میں
بس ایک ہی بات ضروری ہے
یاں شب کی سحر سے دوری ہے
اس شب کے تسلسل میں پنہاں
اک گھور اندھیرا جہل کا ہے
جس جہل کی کالی آندھی نے
جیون کے سچ کو چاٹ لیا
اور ہم نے اسی ویرانی میں
اک اندھا جیون کاٹ لیا
اس کالے اندھے جیون میں
غربت کی تیرہ بختی نے
کچھ قسمت کے احسان نے بھی
کچھ جبر وقت کی سختی نے
انسان سے کیا کچھ چھینا ہے
یہ جینا کیسا جینا ہے
پسماندگیٔ جاں روح تلک
در آئی سیاہی اوڑھے ہوئے
ہم مقتل شب میں آ بیٹھے
انکار کا دامن چھوڑے ہوئے
انکار کہ جس کی جنبش لب
ہر شب کی سحر بن سکتی ہے
یہ جرأت و نافرمانیٔ شب
بے بس کی سپر بن سکتی ہے
پھر کیوں اس قتل گہہ شب میں
آ بیٹھے ہیں جی ہار کے ہم
اقرار سے لب آسودہ سہی
منکر تو نہیں انکار کے ہم


اس شب در شب تاریکی میں
جو رات بھی ہے وہ رات نہیں
اس ہارنے والی بازی میں
جو مات بھی ہے وہ مات نہیں
کچھ قسمت کی سفاکی نہیں
کچھ سود و زیاں کا ہاتھ نہیں
بس ایک ہی دکھ بے پایاں ہے
ہم خود بھی اپنے ساتھ نہیں