زندگی کی راہ میں تنہائیاں رکھ دے گا وہ
زندگی کی راہ میں تنہائیاں رکھ دے گا وہ
اپنی یادوں کی فقط پرچھائیاں رکھ دے گا وہ
آخری دم تک جو گونجے گی خیالوں میں ترے
درد کی کچھ اس طرح شہنائیاں رکھ دے گا وہ
اس کے لہجے میں انا اور تلخیاں گفتار میں
کڑوی باتوں میں مگر سچائیاں رکھ دے گا وہ
اس کو آتا ہے مزاجوں کو بدلنے کا ہنر
فطرت بد میں کئی اچھائیاں رکھ دے گا وہ
مفلسی فاقہ کشی دشواریوں کا سامنا
آزمائش کو یہ سب کٹھنائیاں رکھ دے گا وہ
اپنے تیور اور انداز بیاں سے اے نثارؔ
سادے لفظوں میں بھی کچھ گہرائیاں رکھ دے گا وہ