زندگی کے دامن میں رنگ و نور و نکہت کیا

زندگی کے دامن میں رنگ و نور و نکہت کیا
خواب ہی تو دیکھا ہے خواب کی حقیقت کیا


دل بھی قفل ابجد ہے ایک نام پوچھے ہے
جان لے تو کھل جائے آخر اس میں حیرت کیا


آپ کے رویہ پر خوش گمانیاں کیسی
کوئی مصلحت ہوگی ورنہ یہ عنایت کیا


چوب خشک صحرا ہوں اور آرزو گل کی
سادگی سے بڑھ کر بھی ہے کوئی حماقت کیا


پاس کا اندھیرا بھی آس کا اجالا بھی
لوگ اسی کو کہتے ہیں جھٹپٹے کی ساعت کیا