زندگی ہے اجل تو تو بھی نہیں
زندگی ہے اجل تو تو بھی نہیں
سوچتا ہوں اٹل تو تو بھی نہیں
تیرے ہوتے بھی سب خراب ہی تھا
اور پھر آج کل تو تو بھی نہیں
اے شگوفوں میں رنگ بھرتے شخص
اس اداسی کا حل تو تو بھی نہیں
جو تری جستجو میں چھوڑ دیا
اس کا نعم البدل تو تو بھی نہیں
مجھ کو یہ جان کر اداسی ہوئی
کچھ مسائل کا حل تو تو بھی نہیں
میں بھی ضوریزؔ کوئی زمزم ہوں
اور پھر گنگا جل تو تو بھی نہیں