زیر لب آپ گنگنائے ہیں

زیر لب آپ گنگنائے ہیں
دل میں لاکھوں خیال آئے ہیں


سوچتا ہوں ترے زمانے میں
کیا کبھی ہم بھی مسکرائے ہیں


موسم گل کی تنگ دامانی
پھول مانگے تھے خار پائے ہیں


تیری محفل میں روشنی کے لئے
آنسوؤں کے دیے جلائے ہیں