خلش
تیری تصویر ترے حسن کا یہ عکس جمیل
تیرے ہونٹوں کا تبسم تری آنکھوں کا سرور
تیرے اس نقرئی ماتھے پہ طلائی جھومر
چاند کی کرنوں میں بہتا ہوا اک موجۂ نور
یہ ترے مرمریں بازو پہ گھنیری زلفیں
آج ساکت ہیں پس پردۂ تصویر مگر
چند مبہم سے نقوش اور یہ دھندلے خاکے
تو نے بھیجے ہیں کہ ہو جائے گی تسکین نظر
کاش یہ ٹیڑھی لکیریں یہی دھندلے خاکے
پیکر ہستی کے سانچے میں اگر ڈھل سکتے
میری مغموم تمناؤں کے خاموش چراغ
تیری سانسوں کی حرارت سے کبھی جل سکتے