زوال میں بھی رہا دل نشیں نظارہ مرا
زوال میں بھی رہا دل نشیں نظارہ مرا
مرے ہی ساتھ گرا ٹوٹ کے ستارہ مرا
کسی پہ رمز مری بات کی کھلی ہی نہیں
نہ کام آیا مرے کوئی استعارہ مرا
یقیں کسی کو نہ آیا میں ڈوب سکتا ہوں
سمجھ رہے تھے اگرچہ سبھی اشارہ مرا
ندی کی طرح کنارہ بھی کاٹتا ہوں میں
کسی حصار میں ہوتا نہیں گزارہ مرا
یہ بات جان کے حیرت نہیں ہوئی مجھ کو
کہ میری آگ سے روشن رہا ستارہ مرا
نہ روک پائی مجھے موجوں کی کوئی سازش
رواں دواں ہے ابھی جھیل میں شکارا مرا
ابھی سے سمت بدلنے لگا میں کیوں عالمؔ
ابھی تو دور بہت دور ہے کنارا مرا