ذرا سی روشنی کے واسطے اے مہرباں میں نے
ذرا سی روشنی کے واسطے اے مہرباں میں نے
جلا ڈالا ہے دیکھو خود ہی اپنا آشیاں میں نے
ستم دیکھو اسی نے زہر گھولا زندگانی میں
جسے سمجھا کیا اب تک رفیق و راز داں میں نے
نہ پوچھو کتنے ارمانوں کی لاشیں دفن کیں میں نے
سجائی ہیں تمناؤں کی کتنی ارتھیاں میں نے
قدم راہ محبت میں سنبھل کر دوستو رکھنا
لٹایا ہے اسی رستے میں اپنا کارواں میں نے
شباب آیا ہے اشرفؔ اب شبستان تصور پر
لہو دے دے کے سینچا تھا خیال گلستاں میں نے