سوچوں کی گہری جھیل میں اترا ہوا ہوں میں

سوچوں کی گہری جھیل میں اترا ہوا ہوں میں
پوچھو نہ کس خیال میں ڈوبا ہوا ہوں میں


کب تک مرے وجود کی ڈھونڈو گے کرچیاں
شیشے کی طرح ٹوٹ کے بکھرا ہوا ہوں میں


پرسش ضرور ہوگی یہ میدان حشر میں
ماضی کو سوچ سوچ کے سہما ہوا ہوں میں


کیا پوچھتے ہو مجھ سے دل مضمحل کا حال
رنگ خیال یار سے بہلا ہوا ہوں میں


بے نام منزلوں کا پتہ کس سے پوچھئے
اشرفؔ یہ کیسی راہ میں کھویا ہوا ہوں میں