زمیں روشن رہے گی آسماں روشن رہے گا
زمیں روشن رہے گی آسماں روشن رہے گا
مری موجودگی سے یہ مکاں روشن رہے گا
میسر آ گئی آسودگی جب اس نگر کو
چھتوں پر رنگ صحنوں میں دھواں روشن رہے گا
کھلے گی ایک دن سب پر حقیقت آئنے کی
طلسم خواب سے سارا جہاں روشن رہے گا
اسے محفوظ رکھنے کی نکالوں کوئی صورت
کہ میرے بعد یہ منظر کہاں روشن رہے گا
کسی دل میں اترنے کی اسے تکلیف کیوں دیں
وہ سب آنکھوں میں بے نام و نشاں روشن رہے گا
مجھے کیا علم تھا میرے مقدر کا ستارہ
جہاں تم پاؤں رکھوگے وہاں روشن رہے گا
ہمارے دم سے ہے تابندگی اس قافلے کی
نہ ہم ہوں گے نہ میر کارواں روشن رہے گا
بجھا سکتا نہیں ہے کوئی میرے آئنے کو
اندھیرے میں بھی یہ آب رواں روشن رہے گا
کھلے گا نیند کے صحرا میں جو بھی پھول ساجدؔ
ورائے لذت وہم و گماں روشن رہے گا