نظم
میں کل رات
اس شہر کی اس سڑک پر گیا
جہاں لوگ
اپنی صداؤں سے ڈر کر
سماعت کو نیلام کر رہے تھے
ہر اک شخص
بس بولنا چاہتا تھا
ہر اک شخص
مٹھی میں جملے چھپائے کھڑا تھا
وہاں لڑکیاں
لال پیلی ہری تتلیوں کی طرح
تیرتی پھر رہی تھیں
مگر اپنے جسموں کے سارے خطرناک حصوں سے خود ڈر رہی تھیں
وہاں کانچ کے چھوٹے چھوٹے گھروندے بنے تھے
وہاں سوکھے سہمے درختوں کے سائے گھنے تھے