زمیں کا رنگ وہی آسماں کا رنگ وہی
زمیں کا رنگ وہی آسماں کا رنگ وہی
وہی صباحت گل ہے بنائے سنگ وہی
جو خواب بن نہیں پایا تھا میری آنکھوں کا
ٹھہر گیا ہے مرے آئنے پہ زنگ وہی
بدن میں آگ لگاتے ہوئے دعا کے ہاتھ
لہو میں پھول کھلاتی ہوئی امنگ وہی
بدلنے والا ہی خود کو بدل نہیں پایا
وہی بہانے ہیں اس کے ہیں عذر لنگ وہی
ہزار صلح کا پرچم بلند کر دیکھو
مگر زمیں پہ مسلط رہے گی جنگ وہی
پرانی وضع سے آیا ہوں تیرے کوچے میں
بدن میں زور وہی روح میں ترنگ وہی
کچھ ایسے ڈھنگ سے تبدیل ہو رہا ہے وہ
کہ رہ نہ جائے کسی مرحلے پہ دنگ وہی
وہی نگر وہی گلیاں وہی مکیں ساجدؔ
پڑی ہے پاؤں میں زنجیر نام و ننگ وہی